بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز کے بعد دعا کرنے کی شرعی حیثیت اور اکابر علمائے دیوبند کا موقف اور معمول


سوال

مکرمی جناب مفتی صاحب دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی!فرض نمازوں کے بعد دعا کے بارے میں آپ سے چندمندرجہ ذیل امور دریافت طلب ہیں:

1: فرض نمازوں کے بعد دعا کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

2:اس بارے میں اکابر علمائے دیوبند کا مؤقف و معمول کیا تھا؟

3: نیز اگر کسی مقام پر کوئی امام فرض نمازوں کے بعد دعا کو یکسر ترک کردے، اور اس کو جائز ہی نہ سمجھے، اس سلسلہ میں متشدد بن جائے، جس کی وجہ سے نمازیوں اور اہل علاقہ میں انتشار پھیل رہا ہو، اس صورت میں مذکورہ امام کا کیا حکم ہے؟ اس کے طرز عمل کی شرعاً کیا حیثیت ہے؟

جواب

1:فرض نمازوں کے بعد دعا کرنا شریعت مطہرہ سے ثابت شدہ عمل ہے ،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے فرائض کے بعد دعا کرنا ثابت ہے،نیز   فرض نمازوں کے بعد کے اوقات حدیث شریف کے مطابق قبولیتِ دعاکے اوقات ہیں،لہذا مذکورہ تمام امور کے پیش نظر علمائے کرام اور فقہائے عظام نے فرائض کے بعد دعاکو افضل کہا ہے۔

(1) حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے:"لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، اللهم ‌لا ‌مانع ‌لما أعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد."

"عن ‌وراد كاتب المغيرة بن شعبة قال: أملى علي المغيرة بن شعبة في كتاب إلى معاوية: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول في دبر كل صلاة مكتوبة: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، اللهم ‌لا ‌مانع ‌لما أعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد. وقال شعبة، عن عبد الملك بهذا."

(صحيح البخاري، كتاب الصلاة، باب الذكر بعد الصلاة، ج:1، ص:168، ط:دارطوق النجاة)

(2)مصنف ابن ابی شیبہ میں مذکورہ بالا حدیث اور دعا سے متعلق یہ صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مذکورہ دعا سلام پھیرتے ہی پڑھاکرتے تھے،یعنی فرائض کا سلام پھیرنے کے متصل بعد یہ دعا پڑھتے تھے،خواہ فرائض کے بعد سنتیں ہوں یا نہیں ہوں۔

"عن وراد، مولى المغيرة، قال: كتب معاوية إلى المغيرة بن شعبة: أي شيء كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إذا سلم في الصلاة؟، قال: فأملاها علي المغيرة، قال: فكتبت بها إلى معاوية، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول إذا سلم: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم ‌لا ‌مانع ‌لما ‌أعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد ."

(المصنف لإبن أبي شيبة، رقم الحديث:3125، ج:3، ص:163،ط:داركنوز)

(3)حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میں جب کبھی کسی فرض یا نفل نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا:" اللهم، اغفر لي ذنوبي وخطاياي، اللهم أنعشني، واجبرني، واهدني لصالح الأعمال والأخلاق، فإنه لا يهدي لصالحها، ولا يصرف سيئها إلا أنت ."

"عن أبي أمامة قال: ‌ما ‌دنوت من نبيكم صلى الله عليه وسلم في صلاة مكتوبة، أو تطوع إلا سمعته يدعو بهؤلاء الكلمات الدعوات، لا يزيد فيهن ولا ينقص منهن: اللهم، اغفر لي ذنوبي وخطاياي، اللهم أنعشني، واجبرني، واهدني لصالح الأعمال والأخلاق، فإنه لا يهدي لصالحها، ولا يصرف سيئها إلا أنت ."

(المعجم الكبير للطبراني ،رقم الحديث:7811، ج:8، ص:200، ط:مكتبة إبن تيمية)

(4)حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:اے معاذ! خدا کی قسم میں تم سے محبت رکھتا ہوں،معاذ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، خدا کی قسم میں بھی آپ سے محبت رکھتا ہوں، پھر فرمایا:اے معاذ!میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد اس دعا کو کبھی نہ چھوڑنا :" اللهم أعني على ذكرك ، وشكرك ، وحسن عبادتك . "

"عن معاذ بن جبل، أن النبي صلى الله عليه وسلم أخذ بيده يوما، ثم قال: " يا معاذ إني لأحبك ". فقال له معاذ: بأبي أنت وأمي يا رسول الله! وأنا أحبك. قال:  أوصيك يا معاذ! ‌لا ‌تدعن ‌في ‌دبر ‌كل صلاة أن تقول: اللهم أعني على ذكرك، وشكرك، وحسن عبادتك ."

(مسند أحمد، رقم الحديث:22117، ج:36، ص:429، ط:مؤسسة الرسالة)

(5)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے اور فارغ ہوتے تو سیدھا ہاتھ اپنے سر مبارک پر ملتے اور یہ دعا پڑھتے تھے:" بسم الله الذي لا إله إلا هو الرحمن الرحيم،  اللهم أذهب عني الهم والحزن ."

"وبه(عن أنس بن مالك) أن النبي صلى الله عليه وسلم كان ‌إذا ‌صلى ‌وفرغ من صلاته مسح بيمينه على رأسه، وقال: بسم الله الذي لا إله إلا هو الرحمن الرحيم، اللهم أذهب عني الهم والحزن ."

(المعجم الأوسط للطبراني،رقم الحديث:3178، ج:3، ص:289،ط:دارالحرمين)

(6)حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کا سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:" اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت، وما أسرفت وما أنت أعلم به مني، أنت المقدم وأنت المؤخر، لا إله إلا أنت ."

"عن علي بن أبي طالب، قال: كان النبي صلى عليه وسلم إذا سلم من الصلاة، قال: اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت، وما أسرفت وما أنت أعلم به مني، أنت المقدم وأنت المؤخر، لا إله إلا أنت ."

(سنن أبي داؤد، رقم الحديث:1509، ج:2، ص:83،ط:المكتبة العصرية)

(7)حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ جب رسول اللہ صلی علیہ وسلم نماز سے لوٹنا چاہتے تو تین مرتبہ استغفار پڑھتے،پھر فرماتے:" اللهم أنت السلام، ومنك السلام، تباركت يا ذا الجلال والإكرام ."

"عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد أن ينصرف من صلاته، استغفر ثلاث مرات، ثم قال: اللهم أنت السلام، ومنك السلام، تباركت يا ذا الجلال والإكرام ."

(سنن أبي داؤد، رقم الحديث:1513، ج:2، ص:83، ط:المكتبة العصرية)

2: اکابر علمائے دیوبند سے فرض نماز کے بعد دعاکر نا ثابت ہے،اور انہوں نے فرض نماز کے بعد دعا کوافضل و مستحب قراردیا ہے۔ 

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے "رسالة إستحباب الدعوات عقيب الصلوات" کے نام سے ایک مفصل رسالہ اس موضوع پر تحریر فرمایاہے، جس میں ارشاد فرماتے ہیں:

"فتحصل هذا كله، أن الدعاء دبر الصلوات مسنون و مشروع في المذاهب الأربعة، لم ينكره إلا ناعق مجنون، قد ضل في سبيل هواه، وسوس له الشيطان فاغواه ."

"پس ان تمام احادیث اور عبارات مذاہب سے یہ حاصل ہوا کہ تمام نمازوں کے دعا کرنا چاروں مذہبوں میں مسنون و مشروع ہے ، اس کا انکار سوا اس جاہل مجنون کے کسی نے نہیں کیا جو اپنی ہوائے نفسانی کے راستہ میں گمراہ ہوگیا، اور شیطان نے اس کے دل میں وسوسہ ڈال کر اس کو بہکادیا۔"(مزید تفصیل کےلیےامدادا الفتاوی(جدید)جلد سوم، صفحہ247 تا صفحہ270 ملاحظہ ہو۔)

(امدادا الفتاوی جدید، کتاب الصلوۃ، ج:3، ص:260، ط:مکتبہ زکریا)

مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ دہلویؒ نے کفایت المفتی میں "فرضوں کے بعد دعا مانگنے کا ثبوت "کے عنوان کے تحت ایک مدلل و مفصل تحریر رقم فرمائی ہے، جس میں فرماتے ہیں :

"احادیث صحیحہ اور روایات فقہیہ سے نہایت واضح طور پر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ فرائض کے بعد سنتوں سے پہلے دعا مانگنا اور ادعیہ ماثورہ کی مقدار تک دعائیں پڑھنا اور ذکر کرنا بلاکراہت جائز ہے، بلکہ اس وقت دعامانگنا افضل ہے،اور اس دعا میں مقبولیت کی زیادہ امید ہے۔"(مزید تفصیل کفایت المفتی،جلد سوم صفحہ340 تا354 ملاحظہ ہو۔)

(کفایت المفتی،کتاب الصلاۃ، جلد سوم، صفحہ نمبر:354، ط:دارالاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا شرعاً ثابت ہے اور مستحب ہے، لیکن اگر اتفاقیہ طور پر کوئی شخص کبھی ترک کردے تو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔"

(کتاب الصلاۃ، نماز کے بعد دعاء کا بیان،ج:5، ص:678، ط:ادارۃ الفاروق)

وفیہ ایضا:

" کتبِ فقہ مراقی الفلاح،درمختار وغیرہ میں اجتماعی دعاء کی ترغیب و تائید مذکورہ ہے، جس فرض نماز کے بعد سنتیں ہیں ،اس فرض کے بعد تو مختصر دعائیہ کلمات پڑھ کر سنتوں میں مشغول ہوجانا چاہیے،اور جس فرض کے بعد سنتیں نہیں (فجر،عصر)اس میں تسبیحاتِ فاطمہ اور طویل دعاء بھی لکھی ہے،کتاب "عمل الیوم واللیلۃ" میں ایک حدیث مذکورہ  ہے جس میں ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعاء کی ترغیب ہے اور دعاء کے قبول ہونے کی امید ہے۔فقط واللہ اعلم

(کتاب الصلاۃ، نماز کے بعد دعاء کا بیان،ج:5، ص:688، ط:ادارۃ الفاروق)

3:فرض نماز کے بعد دعاکرنا ایک مستحب عمل ہے،اس کو مطلقاً ناجائز سمجھ کر ترک کرناجائز نہیں ہے،لہذا مذکورہ  امام اگر واقعۃً فرض نماز کے بعد دعا کو ناجائز سمجھ کر ترک کررہا ہوتو اس کا یہ طرز عمل ازروئے شرع درست نہیں ہے،تاہم مقتدیوں کو چاہیے کہ وہ  انفرادی طور پر دعا مانگ لیا کریں،اور کوشش کریں کہ اس معاملہ میں انتشار کی راہ اختیار کرنے کے بجائےافہام و تفہیم سے حل نکالاجائے۔

مراقی الفلاح میں ہے:

"عن شمس الأئمة الحلواني لا بأس بقراءة الأوراد بين الفريضة والسنة، ويستحب للإمام بعد سلامه أن يتحول إلى يساره لتطوع بعد الفرض، وأن يستقبل بعده الناس، ويستغفرون الله ثلاثا، ويقرءون آية الكرسي والمعوذات، ويسبحون الله ثلاثا وثلاثين، ويحمدونه كذلك، ويكبرونه كذلك، ثم يقولون "لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير"، ثم يدعون لأنفسهم وللمسلمين رافعي أيديهم، ثم يمسحون بها وجوههم في آخره.

""ثم يدعون لأنفسهم وللمسلمين" بالأدعية المأثورة الجامعة، لقول أبي أمامة قيل يا رسول الله أي الدعاء أسمع؟ قال: "جوف الليل الأخير ودبر الصلوات المكتوبات" ولقوله صلى الله عليه وسلم: "والله إني لأحبك، أوصيك يامعاذ! لا تدعن دبر كل صلاة أن تقول: "اللهم أعني على ذكرك، وشكرك، وحسن عبادتك"، "رافعي أيديهم" حذاء الصدر وبطونها مما يلي الوجه، بخشوع وسكون، ثم يختمون بقوله تعالى {سبحان ربك رب العزة عما يصفون}، لقول علي رضي الله عنه: "من أحب أن يكتال بالمكيال الأوفى من الأجر يوم القيامة، فليكن آخر كلامه إذا قام من مجلسه {سبحان ربك} الآية"، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قال دبر كل صلاة {سبحان ربك.....} الآية ثلاث مرات، فقد اكتال بالمكيال الأوفى من الأجر"، "ثم يمسحون بها أي بأيديهم "وجوههم في آخره" لقوله صلى الله عليه وسلم: "إذا دعوت الله فادع بباطن كفيك، ولا تدع بظهورهما، فإذا فرغت فامسح بهما وجهك"، وكان صلى الله عليه وسلم إذا رفع يديه في الدعاء لم يحيطهما، وفي رواية لم يردهما حتى يمسح بهما وجهه، والله تعالى الموفق."

(كتاب الصلاة،‌‌فصل في الأذكار الواردة بعد الفرض،ص:118، ط:المكتبة العصرية)

فقط والله تعالى أعلم


فتوی نمبر : 144408101435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں