بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض غسل میں شوگر ٹیسٹ کے لئے لگائی گئی چپ پر مسح یا پانی بہانے کا حکم


سوال

 آج کل شوگر ٹیسٹ کے لیے ایک اسٹیل نما پاکستان کے پرانے بڑے ایک روپے کے سکہ کی سائز میں چپ ہاتھ پر لگتی ہے، جو کافی مہنگی ہوتی ہے اور اس کے استعمال کا دورانیہ بیس دن کا ہوتا ہے تاکہ شوگر کے مریض کو بار بار سوئی لگانے کی تکلیف نہ ہو،  اور شوگر کا مریض اس چپ کو اسکین کرکے اپنا شوگر خود ہی ٹیسٹ کرتا رہے، اب سوال یہ ہے کہ اگر اس دوران فرض غسل کی حاجت ہوتی ہے تو کیا اس چپ پر مسح کرنا یا اس کے اوپر سے پانی کا گزر جانا کافی ہوگا یا اس کو نکالنا اور پانی بہانا ضروری ہوگا؟ واضح رہے کہ اس چپ کو نکالنا تو آسان ہے مگر اس کی قیمت کافی زیادہ ہے اور نکالنے کے بعد یہ چپ ضائع ہوجاتی ہے۔

جواب

 واضح رہے کہ غسل میں بنیادی طور پر ایک ہی فرض ہے،وہ یہ ہے کہ پورے جسم میں جہاں تک تکلیف ومشقت کے بغیر پانی پہنچ سکے وہاں تک پانی پہنچانا،لیکن فقہاء کرام نے  اسے آسان اور منضبط کرنے کے لیے غسل کے  تین فرائض بیان کیے ہیں:

۱-منہ بھر کر اچھی طرح  کلی  کرنا۔

۲-ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا۔

۳- پورے بدن پر کم از کم ایک مرتبہ  اس طرح پانی بہانا کہ بال برابر جگہ بھی خشک نہ رہے،بلکہ پورے  بدن پر پانی پہنچ جائے ۔

ان فرائض میں سے اگر کسی فرض کی ادائیگی میں کمی کوتاہی ہوجائےتو فرض غسل نہیں ہوگا،لہذاجب گزشتہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ جسم پر جہاں تک ممکن ہو پانی پہنچایا جائے۔

 چپ جو شوگر کے چیک کرنے کے لیے لگائی جاتی ہے،اگر اس پر پانی بہانے میں پانی اس چپ کے نیچے  کھال تک پہنچ جاتا ہے جو چپ کے ساتھ لگی ہوئی ہے،توفرض غسل ہوجائے گا،لیکن اگر پانی نہیں پہنچے،تو پھر چپ کانکالنا ضروری ہے،محض قیمتی ہونے کی بناپر چپ کے اوپر سے پانی بہانے کی گنجائش نہیں ہوگی،نیز اس "چپ "کو جبیرہ قراردیتے ہوئے اس پر مسح کاجواز بھی نہیں ہوگا،کیوں کہ جبیرہ زخم کے اوپر لگایاجاتاہے،جب کہ اس چپ کے نیچے کوئی زخم نہیں ہے۔

اور جامعہ کے ویب سائٹ پہ اسی کے قریب قریب ایک فتوے کا اقتباس:

’’سی جی ایم سینسر سے متعلق حاصل کردہ معلومات سے یہ بات واضح ہے کہ سی جی ایم سینسر نہ تو کوئی دوا ہے اور نہ اسے جسم پر لگانا علاج ہے، بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ شوگر کی کیفیت کا اندازہ ہوتا رہے، جب کہ شوگر معلوم کرنے کا یہی ایک ذریعہ نہیں ہے، اور نہ ہی شوگر کے ہر مریض کو یہ مشین استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ دیگر آلات بھی شوگر جانچنے کے میسر ہیں، اس لیے عمومی حالات میں یہ سینسر لگانا شرعاً حاجت یا ضرورت کے مرتبے تک نہیں پہنچتا، بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ منفعت، فائدہ یا سہولت کے درجے میں ہے۔
دوسری طرف فرض غسل میں سارے جسم پر پانی بہانا فرض ہے، سوئی کے سرے کے برابر بھی جسم کا معمولی سا حصہ دھلنے سے رہ گیا ،تو فرض غسل نہیں ہوگا، چناں چہ جسم پر اگر کوئی ایسی چیز لگی ہو جو جسم کی سطح تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ ہو اور اسے جسم سے اتارنے میں حرج بھی نہ ہو تاہو تو غسل فرض ہونے کی صورت میں اسے جسم سے اُتارنالازم ہے، ورنہ غسل مکمل نہ ہوگا۔‘‘

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) ركنه فهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج مرة واحدة حتى لو بقيت لمعة لم يصبها الماء لم يجز الغسل، وإن كانت يسيرة لقوله تعالى {وإن كنتم جنبا فاطهروا} [المائدة: 6] ، أي: طهروا أبدانكم، واسم البدن يقع على الظاهر، والباطن فيجب تطهير ما يمكن تطهيره منه بلا حرج، ولهذا وجبت المضمضة، والاستنشاق في الغسل، لأن إيصال الماء إلى داخل الفم، والأنف ممكن بلا حرج، وإنما لا يجبان في الوضوء لا، لأنه لا يمكن إيصال الماء إليه بل، لأن الواجب هناك غسل الوجه، ولا تقع المواجهة إلى ذلك رأسا، ويجب إيصال الماء إلى أثناء اللحية كما يجب إلى أصولها، وكذا يجب على المرأة إيصال الماء إلى أثناء شعرها إذا كان منقوضا كذا ذكر الفقيه أبو جعفر الهندواني لأنه يمكن إيصال الماء إلى ذلك من غير حرج."

(كتاب الطهارة، ج:1، ص:34، ط:دارالكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"ولو لصق بأصل ظفره طين يابس وبقي قدر رأس إبرة من موضع الغسل لم يجز."

(كتاب الطهارة، ج:1، ص:14، ط:دارالكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويجوز) أي يصح مسحها (ولو شدت بلا وضوء) وغسل دفعاً للحرج (ويترك) المسح كالغسل (إن ضر، وإلا لا) يترك (وهو) أي مسحها (مشروط بالعجز عن مسح) نفس الموضع (فإن قدر عليه فلا مسح) عليها. والحاصل لزوم غسل المحل ولو بماء حار، فإن ضر مسحه، فإن ضر مسحها، فإن ضر سقط أصلاً ... (والرجل والمرأة والمحدث والجنب في المسح عليها وعلى توابعهما سواء) اتفاقاً".

(كتاب الطهارة، باب التيمم، ج:1، ص:280، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144312100380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں