1۔ فرض اور واجب میں کیا فرق ہے ؟
2۔ قربانی کے گوشت کو تقسیم کیسے کیا جائے؟ کتنے حصے کیے جائیں؟
1۔ واضح رہے کہ شریعت کے احکام کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: ایک قسم کا نام "مامورات" ہے، جب کہ دوسری قسم کو "منہیات" کہتے ہیں۔ مامورات ان احکامات کو کہا جاتا ہے جن میں کسی کام کے "کرنے" کا حکم دیا گیا ہو اور منہیات اُن احکامات کو کہتے ہیں جن میں کسی کام سے "بچنے" کا حکم دیا گیا ہو، پھر احکامات خواہ وہ مامورات کے قبیل سے ہوں یا منہیات کے قبیل سے، درجات اور مراتب کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں، بلکہ مختلف مراتب اور درجات میں تقسیم ہیں۔
لہذا صورت مسئولہ میں فرض اور واجب دونوں "مامورات" کی قسمیں ہیں، ان میں عمل کے لحاظ سے فرق نہیں ہے، بلکہ فرض اور واجب دونوں پر عمل کرنا لازم اور ضروری ہے، اسی وجہ سے فرض کےلیے کبھی واجب ، اور واجب کے لیے کبھی فرض کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے ؛کیوں کہ معنوی اعتبار سے دونوں میں بہت قربت ہے اور عمل دونوں ہی پر ضروری ہے، دونوں کو چھوڑنا گناہ ہے، البتہ اعتقاد کے اعتبار سے ان دونوں میں اصطلاحی فرق ہے، وہ یہ کہ :
فرض: اسے کہتے ہیں جو کسی قطعی اور یقینی دلیل سے ثابت ہو، اور اس کی دلالت بھی قطعی ہو، جیسے قرآن کریم کی کوئی واضح آیت یا متواتر حدیث۔فرض کا انکار کرنے والا کافر ہوجاتا ہے۔
جب کہ واجب : ظنی دلیل سے ثابت شدہ عمل کو کہا جاتا ہے ، یعنی یا تو وہ ایسے ذریعہ سے ثابت ہو جو قطعی نہیں ہے ، یا ذریعۂ ثبوت تو یقینی ہو، لیکن اس میں ایک سے زیادہ معنوں کی گنجائش ہو، واجب کے انکار پر کفر کا حکم نہیں لگتا، البتہ اس کو کسی عذر کے بغیر چھوڑنے والا فاسق کہلاتاہے۔
2۔ مال دار اور صاحبِ وسعت شخص کے لیے بہتر یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرکے؛ ایک حصہ غرباء میں تقسیم کردے، اور ایک حصہ رشتہ داروں میں تقسیم کردے، اور ایک حصہ اپنے لیے محفوظ کرلے۔ نیز اگر کوئی سارا گوشت صدقہ کردے یا سارا اپنے پاس رکھ لے تو یہ بھی جائز ہے۔ لہذا اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے جس صورت میں کسی کو آسانی ہو تو اسی کو اختیار کرلے۔
البحر الرائق میں ہے:
"أن الفرض ما ثبت بدليل قطعي لا شبهة فيه قال فخر الإسلام في أصوله الحكم إما أن يكون ثابتا بدليل مقطوع به أو لا والأول هو الفرض والثاني إما أن يستحق تاركه العقاب أو لا والأول هو الواجب إلخ ثم قال: وأما الفرض فحكمه اللزوم علما بالعقل وتصديقا بالقلب، وهو الإسلام وعملا بالبدن، وهو من أركان الشرائع ويكفر جاحده ويفسق تاركه بلا عذر.
وأما حكم الوجوب فلزومه عملا بمنزلة الفرض لا علما على اليقين لما في دليله من الشبهة حتى لا يكفر جاحده ويفسق تاركه وهكذا في غير ما كتاب من كتب الأصول كالمغني والمنتخب والتنقيح والتلويح والتحرير والمنار وغيرها وفي التصريح ثم استعمال الفرض فيما ثبت بظني والواجب فيما ثبت بقطعي شائع مستفيض كقولهم الوتر واجب فرض وتعديل الأركان فرض ونحو ذلك يسمى فرضا عمليا وكقولهم الزكاة واجبة والصلاة واجبة ونحو ذلك فلفظ الواجب أيضا يقع على ما هو فرض علما وعملا كصلاة الفجر وعلى ظني هو في قوة الفرض في العمل كالوتر عند أبي حنيفة حتى يمنع تذكره صحة الفجر كتذكر العشاء وعلى ظني هو دون الفرض في العمل وفوق السنة كتعيين الفاتحة حتى لا تفسد الصلاة بتركها لكن يجب سجدة السهو. اهـ."
(كتاب الطهارة، ج: 1، ص: 11، ط: دار الكتاب الإسلامي)
بدائع الصنائع میں ہے:
"والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقاربه وأصدقائه ويدخر الثلث لقوله تعالى {فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر} [الحج: 36] وقوله - عز شأنه - {فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير} [الحج: 28] وقول النبي عليه الصلاة والسلام «كنت نهيتكم عن لحوم الأضاحي فكلوا منها وادخروا» فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا ولأنه يوم ضيافة الله عز وجل بلحوم القرابين فيندب إشراك الكل فيها ويطعم الفقير والغني جميعا لكون الكل أضياف الله تعالى - عز شأنه - في هذه الأيام وله أن يهبه منهما جميعا، ولو تصدق بالكل جاز ولو حبس الكل لنفسه جاز؛ لأن القربة في الإراقة."
(كتاب التضحية، ج: 5، ص: 81، ط: دار الكتب العلمية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144612100472
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن