بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

فرش پر اگر نجاست ہو تو اسے پاک کیسے کیا جائے؟


سوال

1۔ باتھ روم صاف کرتے وقت نجاست نظر آتی  ہے تو اس کو برش سے رگڑا جاتا ہے،اگر وہ نجاست تھوڑی نم ہو تو پھیل جاتی ہے اور اگر سخت ہو تو وہ باریک ٹکڑوں میں پھیل جاتی ہے ۔ اب اس جگہ کو پاک کیسے کریں جہاں نجاست پھیل گئی ہے ۔اس پر اگر پانی بہائیں تو وہ پانی پورے باتھ روم میں نجاست کو لے کر پھیل جاتا ہے۔چپل کے نچلے حصے پر بھی لگ جاتا اور اگر وہ گیلی چپل باتھ روم سے باہر لے جائیں تو کیا باہر کی جگہ بھی ناپاک ہوگی؟

2۔ نیز اگر سارے باتھ روم میں تین دفعہ پانی بہا دیا جائے جس سے نجاست نظر  آنی ختم ہو جائے تو اب چپل اور جس جگہ چپل پہن کر کھڑے ہوں تو وہ تو ناپاک ہی رہے گی اس کو کیسے پاک کریں؟

اور اگر  باتھروم میں تین دفعہ پانی بہانا کہ باتھ روم کے کسی حصے میں بھی تین سے کم دفعہ پانی نہ  پڑے بڑا مشکل ہے۔

3۔ اگر ایک جگہ نجاست نظر آتی ہے  اور آس پاس کہیں نجاست نہیں نظر آتی  سب کو ایک ہی برش سے صاف کیا اور رگڑا جاتا ہے۔اگر ایک برش سے پہلے نجاست والی جگہ پھر دوسری صاف جگہیں رگڑیں تو کیا صاف جگہیں  پر بھی تین دفعہ پانی بہانا ہوگا؟

4۔  اگر نجاست جمی ہوئی تھی پھر اس کے اوپر پانی پھیلتا ہوا آگیا یا اس پر پانی بہایا گیا تو کیا یہ  پانی ناپاک ہوگا ؟

5۔ یا کسی نے اس نجاست پر جس پر پانی آگیا تھا پیر رکھ دیا تو کیا پیر ناپاک ہوگیا؟یا چپل رکھ دی تو چپل کا نچلا حصہ ناپاک ہوگا؟

اگر ناپاک ہوگا تو کیسے دھویا جائے گا؟ اس جگہ سے چل کہ بھی نہیں جاسکتے کہ دوسری جگہ پر قدم/چپل پڑتے ہی وہ جگہ بھی ناپاک ہو جائے گی تو کھڑے کھڑے کیسے دھویں؟

6۔ باتھ روموں کو کیسے پاک کیا جائے۔کبھی کبھی تو متعدد جگہوں پر تھوڑی تھوڑی نجاست لگی ہوتی  ہے اور ہر ایک کو اتنی احتیاط سے صاف کرنا کہ چھینٹیں نہ اڑیں اور تین تین دفعہ پانی بہانا وقت اور پانی کی قلت کی وجہ سے بہت مشکل ہے۔خاص طور پر جب باتھ روم میں مختلف چیزیں رکھی ہوئی ہوں جیسے جھاڑو وائپر لوٹا پائپ سٹول وغیرہ ان سب پہ چھینٹے لگ جاتے ہیں ،  ان کو علی حدہ علی حدہ پاک کرنا بہت مشکل ہے۔برائے مہربانی تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

1۔ صورت مسئولہ میں  زمین پر اگر نجاست  مرئی ( نظر  آنے والی نجاست) لگی ہو تو زمین دھونے سے قبل اس نجاست کو ہٹانے  کے بعد اس جگہ پر پانی بہانا چاہیئے، پس نجاست جمی ہوئی  ہونے کی وجہ  سے اگر اسے برش سے رگڑا جائے، تو رگڑنے کے بعد  فلش یا نالی کے پاس  برش پر اچھی طرح سے پانی بہا لیا جائے، تاکہ نجاست زائل ہوجائے ، اس کے بعد اس برش سے پورے بیت الخلاء کے فرش کو رگڑ کر صاف کیا جا سکتا ہے، ایسے کرنے سے  فرش ناپاک نہیں ہوگا۔

اور اگر پیشاب کسی زمین پر گرا ہو اور وہ زمین خشک ہو جائے  تو زمین خشک ہونے اور نجاست کا اثر باقی نہ رہنے کی صورت میں دھوئے بغیر  زمین پاک ہوجائے گی، البتہ  احتیاطاً اس زمین یا فرش کو پاک کر لیا جائے،  پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ : 

 مذکورہ فرش پر اتنا پانی بہا دیا جائے کہ اس پر نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے ۔ تین مرتبہ پانی بہانا لازمی نہیں۔

پانی بہاتے ہوئےچپل پر بھی اتنا پانی  بہالیا جائے کہ  نجاست کا اثر باقی نہ رہے، پس مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق بیت الخلاء کا فرش پاک کرنے کے بعد زمین کی پاکی کے حوالہ سے وہم نہ کیا جائے۔

نیز ناپاک چپل بیت الخلاء کے باہرجس جگہ رکھی ہو ، اگر وہ حصہ تر ہو، تو فقط اس حصہ  کو کپڑے سے خشک کرکے اس پر پانی ڈال لیا جائے، البتہ اگر زمین کا وہ حصہ خشک ہو چکا ہو، اور نجاست کا کوئی اثر ظاہر نہ  ہوتا ہو، تو خشک ہونے کی وجہ سے زمین کا وہ حصہ پاک شمار ہوگا، اور اس حصہ پر نماز ادا کرنا بھی جائز ہوگا۔

2۔ تین مرتبہ پانی بہانا ضروری نہیں، اتنی مقدار میں پانی بہانا کافی ہے کہ نجاست کا اثر ختم ہوجائے۔

3۔  نجاست والے کو برش سے رگڑ کر برش کو پاک کرلیا جائے،  اس کے بعد اس برش سے بیت الخلاء کی بقیہ پاک زمین کو دھویا جائے، پس اگر برش پاک کئے بغیر بقیہ حصوں میں اسے استعمال کیا گیا تو زمین کا اتنا حصہ بھی ناپاک ہوجائے گا، جس کی پاکی کا طریقہ جواب نمبر ایک میں مذکور ہے۔

4۔ مذکورہ پانی ناپاک شمار ہوگا۔

5۔ پیر یا چپل کا نچلا حصہ ناپاک ہوجائے گا، جس کی پاکی کا طریقہ یہ ہے کہ اس پر اتنا پانی بہایا جائے کہ نجاست کا اثر باقی نہ رہے۔

6۔ جس حصہ یا چیز پر  واقعۃً  نجاست لگی ہو، اسے مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق پاک کرلیا جائے، محض شک کی وجہ سے ناپاکی کے وسوسہ  کا شکار نہ ہوں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الأرض إذا تنجست ببول واحتاج الناس إلی غسلها، فإن کانت رخوةً یصب الماء علیها ثلاثاً فتطهر، وإن کانت صلبةً قالوا: یصب الماء علیها وتدلك ثم تنشف بصوف أوخرقة، یفعل کذلك ثلاث مرات فتطهر، وإن صب علیها ماء کثیر حتی تفرقت النجاسة ولم یبق ریحها ولا لونها وترکت حتی جفت تطهر، کذا في فتاویٰ قاضی خان."

(الباب السابع في النجاسة وأحكامها، الفصل الأول في تطهير الأنجاس، ١ / ٤٣، ط: دار الفكر)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"وإذا أصابت النجاسة الأرض، فإن كانت رخوة طهرت بالصب عليها؛ لأنها صارت بمنزلة العصر في الثوب، وإن كانت صلبة فاندفع الماء عن موضع النجاسة طهر ذلك المكان، وينجس الموضع الذي انتقل الماء إليه، وإن لم ينتقل الماء عن ذلك المكان يحفر ذلك الموضع، هكذا ذكر القدوري رحمه الله، ومعنى قوله يحفر ذلك الموضع أنه يجعل أعلاها أسفلها وأسفلها أعلاها.

وفي «الطحاوي» : إذا كانت الأرض محددة، وكانت صلبة، فإنه يحفر في أسفلها حفيرة، فيصب الماء عليها، فيجمع الماء في تلك الحفيرة فيغسل الأرض ثم يكنس الحفيرة، وإن كانت الأرض مستوية وكانت صلبة، فلا حاجة إلى غسلها بل يجعل أعلاها أسفلها وأسفلها أعلاها ويطهر.

وفي «الفتاوى» : البول إذا أصاب الأرض واحتيج إلى الغسل يصب الماء عليه عند ذلك وينشف ذلك أو خرقة، فإذا فعل ذلك ثلاثا طهر وإن لم يفعل كذلك، ولكن صب عليه ماء كثيرا حتى عرف أنه زالت النجاسة، ولا يوجد في ذلك لون ولا ريح ثم تركه حتى تنشفه الأرض كان طاهرا، وعن الحسن بن أبي مطيع رحمه الله قال: لو أن أرضا أصابها نجاسة، فصب عليها الماء، فجرى عليها إلى أن أخذت قدر ذراع من الأرض طهرت الأرض، والماء طاهر ويكون ذلك بمنزلة الماء الجاري."

( كتاب الطهارات، الفصل السابع في النجاسات وأحكامها، ١ / ٢٠٠، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

 "وإذا ذهب أثر النجاسة عن الأرض و" قد "جفت" ولو بغير الشمس على الصحيح طهرت و "جازت الصلاة عليها" لقوله صلى الله عليه وسلم: "أيما أرض جفت فقد زكت" "دون التيمم منها".

قوله: "وإذا ذهب أثر النجاسة عن الأرض" المراد بالأرض ما يشمله إسم الأرض كالحجر والحصى والآجر واللبن ونحوها إذا كانت متداخلة في الأرض غير منفصلة عنها وإن لم تكن كذلك فلا بد من الغسل ولا تطهر بالجفاف لأنها حينئذ لا تسمى أرضا عرفا ولذا لا تدخل في بيع الأرض حكما لعدم اتصالها بها على جهة القرار فلا تلحق بها كما في القهستاني ومنية المصلي وشرحيها للحلبي وابن أمير حاج إلا انهم أطلقوا في الحصى فلم يقيدوه بالاتصال وفي الخانية الحجر إذا كان يتشرب النجاسة كحجر الرحى يطهر بالجفاف كالأرض وإن كان لا يتشرب يعني كالرخام لا يطهر إلا بالغسل وحمل الحلبي هذا التفصيل في الحجر المنفصل الذي ينقل ويحول وعليه مشى صاحب الدر حيث قال فالمنفصل يغسل لا غير إلا حجرا خشنا كرحى فكارض اهـ"

( كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة عنها، ص: ١٦٤، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں