بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فروخت شدہ مکان کو آگے بیچنا


سوال

میری والدہ کے ترکہ میں ایک عددگھر اوردومکان پگڑی کے اور120 گزکاپلاٹ اسکیم 33 کی فائل ہے، ہم تین بھائی  ہیں ،جب کہ دوبہنوں کاانتقال والدہ سے پہلے ہواہے،سن 2008 میں جس گھر میں ہم رہتے تھے، میرے بھائی سے میراسوداطے پایاتھاچودہ لاکھ کا،جس کاایک لاکھ روپے میں نے ایڈ وانس اداکیاتھا،بعد میں میرے بھائیوں نے اس فروخت شدہ گھر کابیس لاکھ میں کسی اورسے سوداکیا،اورپچاس ہزاربیعانہ بھی وصول کیا،بعد میں یہ سوداختم کردیاگیا،اوربھائیوں کی مشاورت سے وہ پچاس ہزارکابیعانہ میرے بچوں نے واپس کیا،پھراس گھر کی حالت بہت خراب تھی،ساری چھت اوربیم گرنے لگی، اس وجہ سے پولیس بھی اٹھانے آئی،تو سب بھائیوں نے فیصلہ کیاکہ گھرکوازسر ِنو تعمیرکریں گے،جس پرتقریباـً تیس لاکھ تک کاخرچہ ہوا،جوکہ میری اہلیہ نے اپنے والد سے ملنے والی میراث اورایک ہائی روف گاڑی اورزیور سے کیا۔

اب سوال یہ ہےکہ میں نے بطورِایڈوانس جو ایک لاکھ روپے اداکئے،اورمیرے بچوں نےجو پچاس ہزارروپے بیعانہ اداکیا،اورمیری اہلیہ نے جو تیس لاکھ گھر کی تعمیرمیں دییے،ترکہ تقسیم کرتے وقت ہم اس کامطالبہ کرسکتے ہیں؟

جواب

واضح رہےکہ جب سائل نے مذکورہ میراث کے مکان کودیگر ورثاء سے ان کی رضامندی سے خریدا،اوربیعانہ بھی اداکیا،توسائل اس گھر کامالک ہوگیا،اوردیگر ورثاء اس کی قیمت کے حق دارہوگئے؛لہذا اب دیگر ورثاء کااس فروخت شدہ مکان کوپہلے سوداکوختم کئے بغیرآگے فروخت کرنادرست نہیں تھا،کیوں کہ یہ مکان توسائل کی ملکیت ہوچکاتھا،اورسائل نےایک لاکھ بیعانہ  دیاتھا،اس کے بعد سائل مزیدرقم دینے کاپابند ہے،اوراہلیہ نے جوگھر کی تعمیرکاخرچہ کیاہے،وہ چوں کہ اپنے ہی  مکان کی تعمیرمیں کیاہے،دیگر ورثاء اس کے ذمہ دارنہیں،  البتہ سائل کے بچوں نے جودوسرے سودے کابیعانہ واپس کیاہے،سائل کو اپنے بھائیوں سےیہ  رقم واپس لینے کاحق حاصل ہے۔

البحرالرائق میں ہے:

"(ولو أخرجت الورثة أحدهم عن عرض أو عقار بمال أو عن ذهب بفضة أو على العكس صح قل أو كثر) حملا على المبادلة لا إبراء إذ هو عن الأعيان باطل."

[كتاب الصلح،باب الصلح في الدين،فصل في صلح الورثة، ٧/٢٦١ ط:دار الكتاب الإسلامي]

البحر الرائق میں ہے:

"قوله (ومن باع ملك غيره فللمالك أن يفسخه، ويجيزه إن بقي العاقدان، والمعقود عليه، وله، وبه لو عرضا) يعني أنه صحيح موقوف على الإجازة بالشرائط الأربعة."

[كتاب البيوع، فصل في بيع الفضولي،١٦٠/٦، ط: دارالكتب الإسلامي]

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں