بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فروخت کرنے کی نیت سے خریدے گئے پلاٹ کی زکوٰۃ اور بعد میں فروخت کرنے کی نیت سے پلاٹ پر زکوٰۃ کا حکم


سوال

پانچ مرلہ پلاٹ ڈیفنس میں اس نیت سے قسطوں پر خریدا تھا کہ اس کو بیچ کر دس مرلہ پلاٹ (ڈیفنس ہی میں خرید شدہ) پر گھر تعمیر کر لیں گے، اب کنسٹرکشن کاسٹ بڑھ جانے کی وجہ سے نہ دس مرلے والا بیچ کر پانچ مرلے والے پر گھر تعمیر ہوسکتا ہے، نہ پانچ مرلے والا بیچ کر دس مرلے والے پر،لہٰذا اب دونوں ہی پلاٹ بیچ کر عام کالونی میں بنا بنایا گھر رہائش کے لیےخریدنے کا ارادہ ہے، اور چوں کہ پانچ مرلے والے کو بیچ کر دس مرلے والے پلاٹ پر تعمیر کا ارادہ تھا، اس لیے اس کی زکوٰۃ ادا کر تے رہے ہیں، لیکن اس موجودہ صورتِ حال میں زکوٰۃ ادا کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کیا حکم ہوگا ؟برائے مہربانی آگاہ کیا جائے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائل نےپانچ مرلہ والے پلاٹ کو خریدتے وقت یہ نیت کی تھی کہ اس کو بیچ کر دوسرے گھر کی تعمیرات میں اس کے پیسے لگائے جائیں گے اور تجارت یا نفع کمانے کی نیت نہیں تھی،لہٰذا اس پانچ مرلے والے پلاٹ پر زکات واجب نہیں ہوگی،اور دس مرلہ والےپلاٹ کو خریدتے وقت تجارت کی نیت نہیں تھی، بلکہ اس کو تعمیر کرنے کی نیت سے خریدا تھا اور اس کو فروخت کرنے کی نیت بعد میں کی ہے تو اس دس مرلہ والے پلاٹ پر بھی زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی، البتہ فروخت کرنے کے بعد رقم پر شرائط کے ساتھ زکات واجب ہوتی ہے، اس بارے میں اس وقت دار الافتاء سے رجوع کریں۔

التعریفات للجرجانی میں ہے:

"‌التجارة: عبارة عن شراء شيء ليباع بالربح."

(باب التاء، ص: 53، ط: دار الكتب العلمية)

الموسوعة الفقهية الکویتیة میں ہے:

"التجارة في اللغة والاصطلاح: هي تقليب المال، أي بالبيع والشراء لغرض الربح."

(حرف التاء، التجارة، ج: 10، ص: 151، ط: دار السلاسل الكويت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا في ثياب البدن)... (وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذا الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة... (وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول)... (أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض".

(ردالمحتار، كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 265-267، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(لا يبقى للتجارة ما) أي عبد مثلا (اشتراه لها فنوى) بعد ذلك (خدمته ثم) ما نواه للخدمة (لا يصير للتجارة) وإن نواه لها ما لم يبعه بجنس ما فيه الزكاة.

قال في الرد:

(قوله: كان لها إلخ) لأن الشرط في التجارة مقارنتها لعقدها".

(رد المحتار، كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 272، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100393

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں