بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فروخت شدہ سونا دوبارہ خریدتے وقت وزن کم کر حساب لگانا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب  میں کسٹمر کو ایک تولہ سونا دیتا ہوں جو کہ 12 گرام بنتا ہے، لیکن جب وہی سونا مجھے واپس آجاۓ تو فی   تولہ کے حساب سے 2 ماشہ کاٹتا ہوں۔کیا یہ کام جائز ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ سونے کی  ثمن اصطلاحی  ( مروجہ کرنسیوں میں سے کسی کرنسی ) کے عوض خرید و فروخت  بیع صرف کہلاتی  ہے، جس کے صحیح ہونے کے لئے جانبین سے سودا   نقد  ہونا شرعا ضروری  ہوتا ہے،البتہ  سونا اور مروجہ کرنسی کے مختلف الجنس ہونے کی وجہ سے دونوں عوض میں برابری شرعا ضروری نہیں ہوتی،  پس صورت مسئولہ میں سائل فروخت شدہ سونا دوبارہ خریدتے وقت وزن میں کمی کرکے جو نفع کماتا ہے، بتصریح  قرآنی بڑا گناہ ہے، جس پر سخت وعیدیں  قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہیں، لہذا سائل کے لیے موجود وزن میں سے دو ماشہ کاٹ کر حساب لگانا جائز نہیں، البتہ خریدتے وقت باہمی رضامندی سے قیمت میں کمی یا زیادتی کرنے کی اجازت ہوگی۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

"٢٨٠٩ - وعن أبي سعيد الخدري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «الذهب بالذهب والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعير بالشعير، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلا بمثل، يدا بيد، فمن زاد أو استزاد فقد أربى، الآخذ والمعطي فيه سواء» ". رواه مسلم.

قال زين العرب: الربويات المذكورة في هذا الحديث ست، لكن لا يختص بهما، وإذا ذكرت ليقاس عليها غيرها (لمن زاد) ، أي: أعطى الزيادة وقدمه لأن الأمر باختياره أولى (" أو استزاد ") ، أي: طلب الزيادة (" فقد أربى ") ، أي: أوقع نفسه في الربا، وقال التوربشتي - رحمه الله - أي: طلب الربا وتعاطاه ومعنى اللفظ أخذ أكثر مما أعطاه، من ربا الشيء يربو إذا زاد، قال الطيبي - رحمه الله: لعل الوجه أن يقال إلى الفعل المحرم، لأن من اشترى الفضة عشرة مثاقيل بمثقال من ذهب فالمشتري أخذ الزيادة وليس بربا (" الآخذ والمعطي فيه ") ، أي: في أصل إثم الربا (" سواء ") . رواه مسلم) ."

( كتاب البيوع، باب الربا، ٥ / ١٩١٧، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"باب الصرف ... (هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل)  أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح."

( كتاب البيوع، باب الصرف، ٥ / ٢٥٧، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100364

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں