بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے احسانات کا بدلہ اللہ ہی قیامت میں چکائیں گے کی وضاحت


سوال

فرمانِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "مجھ پر ،دین اسلام پر اور میری اُمت پر جس نے بھی کوئی احسان کیا ،میں محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم نے اُن کے احسانات کا بدلہ اسی دنیا میں چکا دیا ، ما سوائے اپنے یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ؛ کیوں کے اُن کے جتنے احسانات ہیں ،  قیامت کے دن رب العالمین خود صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اُن احسنات کا صلہ دیں گے ، وضاحت فرمائیں۔

جواب

سائل نے جس حدیث کا مفہوم پیش کیا ہے ،یہ  روایت کتبِ احادیث،سیر  وتاریخ  میں مختلف الفاظ کے ساتھ  منقول ہے ،جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی جس اندازسے تعریف وتوصیف فرمائی ہے ،اس کا اندازہ اس روایت سے بخوبی ہو جاتا ہے ،کہ اسلام ،پیغمبرِ اسلام اور  اہلِ اسلام کی نظر میں حضرتِ ابو بکر  رضی اللہ عنہ  کی شان کس قدر بلند وبالا ہے ۔

ذیل کے حوالے میں ذکر کردہ   پوری حدیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو :         

"حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "جس کسی نے ہمیں کچھ دیا ہے ،ہم نے اسے اس کا بدلہ دے دیا ہے ،سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ،کہ انہوں نے ہمارے ساتھ ایسی نیکی اور بخشش کی ہے ،جس کا بدلہ قیامت کے دن خدا ہی دے گا اور کسی شخص کے مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابو بکر  رضی اللہ عنہ کے مال نے پہنچایا ہے ،اگر میں کسی کو اپنا خلیل و خالص دوست بنانا چاہتا ،تو ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی کو اپنا دوست بناتا ،یا درکھو تمہارے  یہ صاحب یعنی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے خلیل ہیں۔"(مظاہرِ حق)

تشریح و توضیح :

اب سوال یہ ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ نے وہ کون سے احسانات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے تھے ، کہ جن کا بدلہ  اللہ تعالی ٰ ہی قیامت میں چکائیں گے؟

تو اس  سوال کا جواب خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی زبانِ اطہر سے ملاحظہ ہو :"حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : "تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ مجھ پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا احسان ہے، مال کا بھی اور ہم نشینی کا بھی۔" اس روایت سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ احسانات جن کا بدلہ اللہ تعالیٰ  ہی قیامت کے دن حضرتِ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو عطاء فرمائیں گے ،ان میں سے ایک چیز آپ رضی اللہ عنہ    کانبی کریم صلی اللہ  پر اپنے مال کو خرچ کرنا تھا ،ایک روایت جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے ، اس میں ہے کہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ایمان  لائے ،تو اس  وقت وہ   40 ہزار  درہم ودینار کے مالک تھے ،وہ سب کے سب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کردیئے ،اسی طرح وہ سات غلام جن کو کفارِ مکہ اسلام لانے کی وجہ سے انتہائی سخت سزائیں اور تکلیفیں دیا کرتے تھے ،ان کو  حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہزاروں دراہم و دینار دے کر آزاد کرایا ،غزوہ تبوک کے موقع پر گھر کا سارا سازو سامان لا کر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی میں رکھ دیا ،اس کے علاوہ بھی تاریخ و سیر کی کتابوں میں بے شمار روایات ملتی ہیں ،کہ جن میں ذکر ہے ،کہ جب بھی  اسلام اور اہلِ اسلام کو  مال و جان کی حاجت ہوئی ، تو حضرت ابو بکر  رضی اللہ عنہ نے بے دریغ اللہ کے راستے میں خرچ  کیا ۔

درج بالا حدیث میں مذکورہ احسانات میں سے دوسری چیز  آپ رضی اللہ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی وہ صحبتِ و ہم نشینی اختیار کرنا ہے،جس کی مثال رہتی دنیا تک نہیں ملے گی ،وہ  ہر مشکل معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی معیت میں کھڑے ہو نا ،اور آپ کا ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دینا ہے،چاہے وہ جنگی مہم ہو یا ہجرت کا مبارک سفر،مکہ ہو یا مدینہ دن ہو یا رات آپ رضی اللہ نے جس وفاداری و جانثاری کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا ، اس کااندازہ اس قصے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ،کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے روح پرور سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین دن رات غارِ ثور میں گزارے  ،یہاں تک کہ جانی دشمن آپ کا پیچھا کرتے کرتے غار کے دھانے تک پہنچ گئے تھے ،اس وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی جان کی فکر سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر فرمارہے تھے ،انہی وفاؤں کا صلہ آپ رضی اللہ عنہ کو یہ ملا ،کہ جس صحبت کو دنیا میں آپ اپنے لیے سب سے بڑی نعمت سمجھتے تھے ،موت کے بعد   بھی آپ رضی اللہ  عنہ کو وہ عظیم نعمت نصیب ہوئی ،کہ روضۂ اطہر میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اب بھی آرام فرما ہیں ،اور میدانِ حشر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی قبرِ مبارک سے اٹھیں گے،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں میدانِ حشر میں تشریف لائیں گے (رضی اللہ عنہ)۔

دوسرا سوال  یہ کہ ان احسانات کا بدلہ آخرت میں ہی  کیوں چکایا جائے گا ،اور اللہ تعالی ہی چکائیں گے ؟

تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب  نبوت کا اعلان کیا ،تو اس وقت  آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے تھے ،مردوں میں سب سے پہلےحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ایمان لائے ، تو اس وقت اسلام کو جانی اور مالی معاونت کی سخت ضرورت تھی ، اس وقت جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی ،گو یا اس نے پورا اسلام  پھیلانے و بچانے میں سعی وکوشش  کی ،نیز اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان کرنا ،گویا کہ پوری امت پر احسان کرنا ہے ،اور پوری امت پر احسان کا بدلہ سوائے اللہ تعالی کے اور کون دے سکتا ہے ؛اس لیے  آپ رضی اللہ عنہ کو کامل و مکمل بدلہ قیامت والے دن ہی دیا جائے گا ،کہ آپ کو جنت کے آٹھوں دروازے پکاریں گے (رضی اللہ عنہ)۔

"سنن الترمذي" میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لأحد عندنا يد إلا وقد كافيناه ما خلا أبا بكر فإن له عندنا يدا يكافئه الله به يوم القيامة، وما نفعني ‌مال ‌أحد قط ما نفعني مال أبي بكر، ولو كنت متخذا خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا، ألا وإن صاحبكم خليل الله."

(‌‌‌‌أبواب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، رقم الحديث:3661، ج:5، ص:609، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي مصر)

"مشكاة المصابيح" میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:ما ‌لأحد ‌عندنا ‌يد ‌إلا ‌وقد ‌كافيناه ‌ما ‌خلا ‌أبا ‌بكر فإن له عندنا يدا يكافيه الله بها يوم القيامة وما نفعني مال قط ما نفعني مال أبي بكر ولو كنت متخذا خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا ألا وإن صاحبكم خليل الله."

(‌‌‌‌كتاب المناقب، باب مناقب أبي بكر، الفصل الثاني، رقم الحديث:6026، ج:3، ص:1699، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

مذکورہ حدیث  درج ذیل مختلف کتبِ احادیث وسیر میں  بھی الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ وارد ہے :

1. (الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي،باب الميم،  ج:4، ص:104، رقم :6328، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

2. (تهذيب الأسماء للنووي، النوع الثاني: الكنى، ‌‌حرف الباء الموحدة، ج:2، ص:189، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

3. (كتاب الإيمان لإبن منده، ذكر وجوب الإيمان برؤية الله عز وجل، رقم الحديث:812، ج:2، ص:795، ط:مؤسسة الرسالة بيروت)

4. (تاريخ بغداد للخطيب البغدادي، رقم الحديث:3492، ج:12، ص:90، ط:دار الغرب الإسلامي بيروت)

"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح" میں ہے:

"(عن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: (ما لأحد عندنا يد) أي: عطاء وإنعام (إلا وقد كافأناه) ، بهمزة ساكنة بعد الفاء ويجوز إبدالها ألفا، ففي القاموس: كافأه مكافأة جازاه ذكره في المهموز، وكفاه مؤنته كفاية ذكره في المعتل، ولا يخفى أن المناسب للمقام هو المعنى الأول، وفي بعض النسخ المصححة بالياء، ولا يظهر له وجه، والمعنى جازيناه مثلا بمثل أو أكثر. (ما خلا أبا بكر) ، أي ما عداه أي إلا إياه (فإنه له عندنا يدا) : قيل: أراد باليد النعمة وقد بذلها كلها إياه - صلى الله عليه وسلم -، وهي المال والنفس والأهل والولد ذكره شارح، ويحتمل أن يكون المراد بترك اليد إعتاق بلال كما يشير إليه قوله: {وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى. الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ. وَمَا لِأَحَدٍ عِندَهُ مِن نِّعْمَةٍ تُجْزَىٰ. إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَىٰ. وَلَسَوْفَ يَرْضَىٰ} [الليل: 17 - 21] وفسر بأن المراد منه أبو بكر وإليه ينظر قوله: (يكافيه الله) أي: يجازيه (بها يوم القيامة) ، أي: جزاء كاملا، واقتصر صاحب (الرياض) على هذا المقدار من الحديث، وقال: رواه الترمذي وقال: حسن غريب. (وما نفعني مال أحد قط ما نفعني) : ما مصدرية ومثل مقدر أي مثل ما نفعني (مال أبي بكر، ولو كنت متخذا) أي: من أمتي (خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا ألا) : للتنبيه (وإن صاحبكم خليل الله) : يحتمل أن يكون فعيلا بمعنى فاعل أو مفعول، والأول أظهر في هذا المقام فتدبر. (رواه الترمذي) .وفي الجامع: (ما نفعني مال قط ما نفعني مال أبو بكر) رواه أحمد وابن ماجه عن أبي هريرة وفي الرياض، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: (ما نفعني مال قط ما نفعني مال أبي بكر) . فبكى أبو بكر وقال: ما أنا ومالي إلا لك.) » أخرجه أحمد وأبو حاتم وابن ماجه والحافظ الدمشقي في (الموافقات) . وعن ابن المسيب أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: (ما مال رجل من المسلمين أنفع لي من مال أبي بكر) . وكان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقضي في مال أبي بكر كما يقضي في مال نفسه» . أخرجه عبد الرزاق في (جامعه). قلت: وكأنه إشارة إلى قوله تعالى: {أَوْ صَدِيقِكُمْ} [النور: 61] وعن عائشة قالت: أنفق أبو بكر على النبي - صلى الله عليه وسلم - أربعين ألفا. أخرجه أبو حاتم. وعن عروة قال: أسلم أبو بكر وله أربعون ألفا أنفقها كلها على رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وفي سبيل الله. أخرجه أبو عمر. وعن عروة قال: أعتق أبو بكر سبعة كانوا يعذبون في الله منهم: بلال، وعامر بن فهيرة. أخرجه ابن عمر. وعن إسماعيل ابن قيس قال: اشترى أبو بكر بلالا وهو مدقوق بالحجارة بخمسين أواق ذهبا فقالوا: لو أبيت الأوقية لبعناكه. فقال: لو أبيتم إلا مائة أوقية لأخذته أخرجه في (الصفوة)."

(‌‌‌‌كتاب المناقب، باب مناقب أبي بكر، الفصل الثاني، رقم الحديث:6026، ج:9، ص:3887، ط:دار الفكر بيروت)

"صحيح البخاري" میں ہے :

"فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إن من ‌أمن ‌الناس علي في صحبته وماله أبا بكر، ولو كنت متخذا خليلا غير ربي لاتخذت أبا بكر، ولكن أخوة الإسلام ومودته، لا يبقين في المسجد باب إلا سد إلا باب أبي بكر)."

(كتاب فضائل الصحابة، باب:قول النبي صلى الله عليه وسلم:سدوا الأبواب، إلا باب أبي بكر، رقم الحديث:3454، ج:3، ص:1337، ط:داراليمامة)

یہی حدیث درجِ ذیل کتب میں بھی کچھ الفاظ کی کمی زیادتی کے ساتھ منقول ہے :

1. (صحيح مسلم، کتاب فضائل الصحابة رضي الله تعالى عنهم، باب من فضائل أبي بكر الصديق، رضي الله عنه، رقم الحديث:2382، ج:4، ص:1854، ط:دار إحياء التراث العربي ببيروت)

2. (سنن الترمذي، أبواب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‌‌باب مناقب أبي بكر الصديق رضي الله عنه، رقم الحديث:3660، ج:5، ص:608، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي مصر)

3.(المصنف لإبن أبي شيبة، ‌‌ما ذكر في أبي بكر الصديق رضي الله عنه، رقم الحديث:31926، ج:6، ص:348، ط:دار التاج لبنان)

4. (الرياض النضرة لمحب الطبري، ‌‌‌‌القسم الثاني: في مناقب الأفراد، الباب الأول: في مناقب خليفة رسول الله أبي بكر الصديق ‌‌الفصل التاسع: في خصائصه، ج:1، ص:128، ط:دار الكتب العلمية)

5. ( ابن سعد، الطبقات الکبري، ‌‌ذكر سد الأبواب غير باب أبي بكر. رضي الله عنه، ج:2، ص:175، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

"صحيح البخاري" میں ہے :

"عن أبي هريرة رضي الله عنه:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (من أنفق زوجين في سبيل الله، نودي من أبواب الجنة: يا عبد الله هذا خير، فمن كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة، ومن كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد، ومن كان من أهل الصيام دعي من باب الريان، ومن كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة).فقال أبو بكر رضي الله عنه: بأبي وأمي يا رسول الله، ما على من دعي من تلك الأبواب من ضرورة، فهل يدعى أحد من تلك الأبواب كلها؟. قال: (نعم، ‌وأرجو أن تكون منهم)."

(کتاب الصوم ،باب الریان للصائمین رقم الحديث:1798، ج:2، ص:671، ط:دارالیمامة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں