بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فارغ ہو کا لفظ بیوی کو ڈرانے کے لیے بولنا


سوال

کافی دنوں سے پریشان ہوں وہمی بھی ہوں بہت زیادہ وسوسے بھی اس معاملے میں آتے ہیں ہمبستری کے منع کرنے پر میں نے ڈرانے دھمکانے کی نیت سے بیوی کو کہا تم میری طرف سے فارغ ہو ابو کو کال کرو تمہیں صبح لے جائیں بیوی رونے لگ گئی بولی آپ مجھے چھوڑو گے تو نہیں میں پھر اس کے پاس گیا اس کو لاڈ پیار سے بولا پاگل ہو میں نے تمہیں صرف ڈرانے کے لئے بولا جس پر بیوی بھی گواہ ہے طلاق کی بات بھی نہیں چل رہی تھی نہ نیت تھی بس ڈرانا مقصود تھا اب وہمی بھی ہو ں سمجھ نہیں آرہا بڑا پریشان ہوں مہربانی فرمائیں شادی کو 4 سال ہو گئے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ شوہر کا  بیوی کو ’’تم میری طرف سے فارغ ہو ابو کو کال کرو تمہیں صبح لے جائیں‘‘ کہنا طلاق کے کنایہ الفاظ میں سے  ہے،  اس جملہ کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ جملہ  مذاکرہ طلاق  (یعنی بیوی کے طلاق کے مطالبہ کے بعد کہا ہو  یا طلاق سے متعلق گفتگو  چل رہی تھی) میں کہا ہو  یا اس جملہ سے شوہر  طلاق کی نیت  ہو تو ان دونوں صورتوں میں بیوی  پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوکر  نکاح ختم ہو جاتا ہے  

اس کے بعد  اگر دونوں میاں بیوی  باہمی رضامندی سے ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر اور شرعی گواہان کے روبرو  دوبارہ عقد کرنا پڑے گا، اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار  ہوگا۔

 صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نےواقعۃ ان الفاظ سے طلاق کی نیت  نہیں کی تھی بلکہ صرف ڈرانے دھمکانے کے لیے یہ جملہ کہا تھا  اور نہ ہی مذاکرۂ طلاق  تھا تو اس صورت میں مذکورہ جملے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، دونوں بحیثیت میاں بیوی ساتھ رہ سکتے ہیں ،باقی آئندہ اس قسم کے الفاظ زبان سے نہ نکالے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال)، وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.

(قوله: وهي حالة مذاكرة الطلاق) أشار به إلى ما في النهر من أن دلالة الحال تعم دلالة المقال قال: وعلى هذا فتفسر المذاكرة بسؤال الطلاق أو تقديم الإيقاع، كما في اعتدي ثلاثاً وقال قبله المذاكرة أن تسأله هي أو أجنبي الطلاق".

(3/296،297، باب الکنایات، ط: سعید)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال): ولو قال: أنت مني بائن أو بتة أو خلية أو برية، فإن لم ينو الطلاق لايقع الطلاق؛ لأنه تكلم بكلام محتمل."

(6 / 72،باب ما تقع به الفرقة مما يشبه الطلاق،ط؛دار المعرفة - بيروت)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102116

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں