بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فارغ اوقات میں بغیر شرط اورجوا کے تاش کھیلنا۔


سوال

فارغ اوقات میں شرط اورجواکے بغیرتاش کے پتے کھیلناکیساہے؟

جواب

           واضح رہے کہشریعتِ مطہرہ نے ایسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جن کھیلوں سے جسمانی فائدہ ہوتا ہو ، جیسے: تیراکی، تیراندازی ،گھڑسواری ۔  اور ان کھیلوں کی حوصلہ شکنی  کی ہے جن میں لگنے سے وقت کا ضیاع ہوتا ہو۔  اور ایسے کھیلوں کو ناجائز قرار دیا ہے جن کی وجہ سے  گناہوں کا ارتکاب لازم آتا ہو یا وہ کھیل فساق و فجار کے کھیل ہوں، جیسے تاش، شطرنج ،کیرم بورڈ،لڈو وغیرہ  ۔

           لہذاصورت مسئولہ میں بغیرشرط اورجواکے بھی  تاش  کھیلنے میں کوئی دنیوی منفعت بھی نہیں پائی جاتی، نیز  بسااوقات اس میں اس درجہ انہماک  ہوتا ہے کہ نماز او ردیگر امورِ دین سے بھی انسان غافل ہوجاتاہے ،لہٰذاتاش کھیلنا اگرچہ جوئے کی شرط کے بغیر ہوجائز نہیں ہے۔

            حدیث شریف  میں ہے:

"علي بن الحسين رضي الله عنهما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه» . رواه مالك وأحمد."

(مشكاة المصابيح باب حفظ/ اللسان الفصل الثانی ۳/۱۳۶۱ ط: المكتب الإسلامي بيروت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال : تاش کھیلناجب کہ کوئی شرط وغیرہ نہ ہو، جب کہ تاش پر فوٹووغیرہ بھی ہوتےہیں ، جائز ہے یانہیں ؟ جب کہ محض تفریح کےلیےہو۔

الجواب حامداومصلیاً: تاش کھیلنابغیرمالی ہارجیت ( جوا) کے بھی جائز نہیں ۔"

( فتاوی محمودیہ، باب الالعاب ، 24/ 417 ط: فاروقیہ کراچی)

کفایت المفتی میں ہے:

’’تاش،  چوسر، شطرنج لہو و لعب کے طور پر کھیلنا مکروہ تحریمی ہے اور عام طور پر کھیلنے والوں کی غرض یہی ہوتی ہے، نیز ان کھیلوں میں مشغول اکثری طور پر فرائض و واجبات کی تفویت کا سبب  بن جاتی ہے اور اس صورت میں اس کی کراہت حد حرمت تک پہنچ  جاتی ہے‘‘.

(کفایت المفتی ، کتاب الحظروالاباحۃ ،9/ 204 ط: دارالاشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102111

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں