فرائض اور واجبات کے درجات تفصیل سے بیان فرمادیجیے۔
واضح رہے کہ فرض اور واجب دونوں ”مامورات“ کی قسمیں ہیں، ان میں سے ہرایک کی دوحیثیتیں ہیں :
1۔ایک حیثیت ان کے عمل کی ہے، اور عمل کے وجوب اور لزوم میں فرض اور واجب دونوں کے درجات برابرہیں،یعنی فرض اور واجب دونوں پر عمل کرنا لازم اور ضروری ہے، اسی وجہ سے فرض کے لیے کبھی واجب ، اور واجب کے لیے کبھی فرض کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے ؛کیوں کہ معنوی اعتبار سے دونوں میں بہت قربت اور عمل دونوں ہی پر ضروری ہے، دونوں کو چھوڑنا گناہ ہے
2۔ دوسری حیثیت ان کے اعتقاد کی ہے، اس اعتبار سے ان کے درجات میں فرق ہے وہ اس طرح کہ :
فرض: اسے کہتے ہیں جو کسی قطعی اور یقینی دلیل سے ثابت ہو، اور اس کی دلالت بھی قطعی ہو، جیسے قرآن کریم کی کوئی واضح آیت یا متواتر حدیث۔فرض کا انکار کرنے والا کافر ہوجاتا ہے۔
جب کہ واجب : ظنی دلیل سے ثابت شدہ عمل کو کہا جاتا ہے ، یعنی یا تو وہ ایسے ذریعہ سے ثابت ہو جو قطعی نہیں ہے ، یا ذریعۂ ثبوت تو یقینی ہو، لیکن اس میں ایک سے زیادہ معنوں کی گنجائش ہو، واجب کے انکار پر کفر کا حکم نہیں لگتا، البتہ اس کو کسی عذر کے بغیر چھوڑنے والا فاسق کہلاتاہے۔
اس لیے کہاجاسکتاہےکہ فرض اور واجب میں درجے کے اعتبارسے فرض کا درجہ واجب سے بڑھاہواہے،لیکن واجب پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
باقی سائل کی مراد اگر کچھ اور ہےتو اسے واضح کرکے دوبارہ سوال کیاجاسکتاہے۔
منحة الخالق میں ہے :
"أن الفرض ما ثبت بدليل قطعي لا شبهة فيه، قال فخر الإسلام في أصوله: الحكم إما أن يكون ثابتاً بدليل مقطوع به أو لا، والأول هو الفرض، والثاني إما أن يستحق تاركه العقاب أو لا، والأول هو الواجب إلخ ثم قال : وأما الفرض فحكمه اللزوم علماً بالعقل وتصديقاً بالقلب، وهو الإسلام، وعملاً بالبدن، وهو من أركان الشرائع، ويكفر جاحده، ويفسق تاركه بلا عذر، وأما حكم الوجوب فلزومه عملاً بمنزلة الفرض لا علماً على اليقين؛ لما في دليله من الشبهة حتى لايكفر جاحده، ويفسق تاركه، وهكذا في غير ما كتاب من كتب الأصول كالمغني والمنتخب والتنقيح والتلويح والتحرير والمنار وغيرها ،وفي التصريح ثم استعمال الفرض فيما ثبت بظني والواجب فيما ثبت بقطعي شائع مستفيض كقولهم الوتر واجب فرض وتعديل الأركان فرض ونحو ذلك يسمى فرضا عمليا وكقولهم الزكاة واجبة والصلاة واجبة ونحو ذلك فلفظ الواجب أيضا يقع على ما هو فرض علما وعملا كصلاة الفجر وعلى ظني هو في قوة الفرض في العمل كالوتر عند أبي حنيفة حتى يمنع تذكره صحة الفجر كتذكر العشاء وعلى ظني هو دون الفرض في العمل وفوق السنة كتعيين الفاتحة حتى لا تفسد الصلاة بتركها لكن يجب سجدة السهو."
( (1/ 49) كتاب الصلاة، ط: دارالكتاب الاسلامي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144411102841
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن