بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نمازوں کو چھوڑ کر آیت کریمہ کا سوا لاکھ مرتبہ ورد کرنے کا حکم


سوال

آیت کریمہ یعنی "لا إِلٰهَ إِلاَّ أنتَ سُبحانَک إني کنتُ مِنَ الظَّالمِین" کو ایک لاکھ پچیس ہزار مرتبہ پڑھنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟اگر میں  اپنے کسی جائز مقصد کے حصول کےلیے نماز کی پابندی کے بغیر آیت کریمہ کا ایک لاکھ مرتبہ ورد کروں تو کیا میرا مقصد پورا ہوجائےگا؟

 میری ملازمت نہیں ہے اور عمر بھی چالیس سال کے لگ بھگ ہے، ہر جگہ انٹرویو دے دے کر تھک گیا ہوں،مگر نوکری نہیں ملتی ،یا ملتی بھی ہےتو بہت ہی بیکار نوکری ملتی ہے، میں اب تھک کر اللہ سے بھی مایوس ہوگیا ہوں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ مایوسی کفر ہے اور یہ کہ "لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ" ،مگر دل اب باغی ہوچکا ہے اور بعض اوقات کفریہ کلمات زبان سے نکل جاتے ہیں، اور شدید ڈپریشن کی وجہ سے دل میں بہت ہی برے خیالات آتے ہیں، اور غصہ رہتا ہے، سمجھ نہیں آتی کہ کیسے اس صورتحال سے نکلوں؟

جواب

حدیث شریف میں ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں جو دعا مانگی”لا إِلٰهَ إِلاَّ أنتَ سُبحانَک إني کنتُ مِنَ الظَّالمِین“ کوئی بھی مسلمان کسی بھی چیز کے لیے اللہ تعالیٰ سے اس دعا کے ذریعے دعا کرے تو اللہ پاک اس کی دعا ضرور قبول فرمائیں گے۔

روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم للآلوسیؒ میں ہے:

"أخرج أحمد والترمذي والنسائي والحكيم في نوادر الأصول والحاكم وصححه وابن جرير والبيهقي في الشعب وجماعة عن سعد ابن أبي وقاص عن النبي صلّى الله عليه وسلّم قال: «دعوه ذي النون إذ هو في بطن الحوت لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين لم يدع بها مسلم ربه في شيء قط إلا استجاب له»."

(سورة الأبنياء ، ج:9، ص:81، ط:دارالكتب العلمية)

تاہم آیتِ کریمہ کے وظیفے کے لیے کسی روایت میں کوئی خاص تعداد مقرر نہیں کی گئی،  بزرگوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں مختلف جائزحاجات کے لیے مختلف تعداد بیان کی ہیں،مثلاً111 مرتبہ، 313 مرتبہ،یا سوالاکھ اور ڈیڑھ لاکھ مرتبہ وغیرہ،تاہم فرائض کو ترک کرنے والے کے لیے وظائف کارگر نہیں ہوتے،اس لیے اگرکوئی شخص نمازوں کو ترک کرکے اس وظیفہ کا اہتمام کرے تو اِس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، کیوں کہ ایمان کے بعد  اسلام کا بنیادی ستون نماز ہے،  نمازِ پنج گانہ ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں،  اور نماز نہ پڑھنے سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں،  بلاشبہ زنا، چوری وغیرہ بڑے بڑے گناہ ہیں، لیکن بلاعذرِ شرعی نماز نہ پڑھنا ان سب گناہوں سے بڑھ کر گناہ ہے، نماز کو سستی یا غفلت کی وجہ سے چھوڑنے والا سخت گناہ گار اور فاسق ہے،پس اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا اور باقی نیک اعما ل ،اور وظائف و اورادکا اہتمام کرتا ہے تو اس کے باقی نیک اعمال مقبول تو ہوں گے لیکن نماز چھوڑنے کا وبال اتنا بڑا ہے کہ یہ وظائف اس کا تدارک نہیں کرسکتے،اور نہ ہی ان وظائف سے وہ اپنے مخصوص مقاصد و فوائد حاصل کرسکتا ہے۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

"کلمہ شہادت کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن نماز ہے ، نماز پنج گانہ ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں اور نماز نہ پڑھنے سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ، زنا ، چوری وغیرہ بڑے بڑے گناہ، نماز نہ پڑھنے کے گناہ کے برابر نہیں ، پس جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ اگر خیر کے دوسرے کام کرتا ہے تو ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ قبول نہیں ہوں گے ، لیکن ترک نماز کا وبال اتنا بڑا ہے کہ یہ اعمال اس کا تدارک نہیں کرسکتے۔"

(نماز کی فرضیت اور اہمیت جلد ۳ ص:۱۸۷ ط:مکتبہ لدھیانوی)

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل پر لازم ہے کہ وہ نمازوں کو باجماعت اداکرنے کا اہتمام کرے،کیوں کہ نمازوں کے اہتمام سے ہی زندگی میں راحت و سکون آئے گا،پریشانیوں اور مصیبتوں سے نجات ملے گی،بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نمازوں کا اہتمام کرنے والے کے لیے رزق کاذمہ لیا ہے،اسی لیے ان شاءاللہ نمازوں سے ہی    حلال روزی کے مواقع بھی پیدا ہوجائیں گے۔علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص نمازکا اہتمام کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے لیےایسی جگہ سے رزق کا بندوبست فرماتے ہیں ، جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتاہے۔

تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر ؒمیں ہے:

"وقوله: {لا نسألك رزقا نحن نرزقك} يعني إذا أقمت الصلاة أتاك الرزق من حيث لا تحتسب."

(سورة طه، ج:5، ص:327، ط:دارطيبه)

باقی جان بوجھ کر اللہ کی رحمت سے نااُمیدی اور کفریہ الفاظ کا زبان سے ادا کرنا ایمان کے لیے خطرناک ہے،لہذااولاًاپنےان الفاظ اور غیرشرعی طرزِ عمل سے توبہ کرے اور  صدقِ  دل سے اپنے قول و فعل پر استغفار کرے، ندامت اور شرمندگی کا اظہار کرے،نیز اس بارے میں اپنے علاقے کے کسی مستند عالم دین اور مفتی سے براہ راست ملاقات کرکے اس کا حکم دریافت کرلے؛ تاکہ خدانخواستہ کفر لازم آرہا ہو تو صحیح طریقے سے تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ ِنکاح بھی کرسکے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102335

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں