میں پانچ وقت کی نماز ادا کرتا ہوں لیکن گھر پر اور صرف فرض ادا کرتا ہوں ،اگر میں سنتوں کے ساتھ پوری نماز ادا کرنے کا ارادہ کروں تو اکثر میں سستی کی وجہ سے نماز چھوڑ دیتا ہوں، لیکن جب سے میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں صرف فرائض ادا کروں گا ،لیکن پانچ وقت کی کروں گا تب سے الحمدللہ میں نے کوئی نماز نہیں چھوڑی، دل میں خیال آتا ہے کہ میں صرف فرائض ادا کر رہا ہوں ایسی نماز اللہ تعالی قبول نہیں کرےگا، اور مجھے نماز نہ پڑھنے سے متعلق جو عذاب اللہ تعالی نے دینے کا کہا ہے وہ مجھے ملے گا۔
کیا واقعی میری نمازیں قبول نہیں ہوں گی اور مجھے نماز نہ پڑھنے کا عذاب ملے گا قیامت کے دن؟
میں جانتا ہوں کہ سنتیں بھی پڑھنی چاہیے ،لیکن جب بھی میں نے سنتوں کے ساتھ نماز پڑھنے کا ارادہ کیاہے، ہمیشہ میں اپنی نماز چھوڑ ہی دیتا ہوں سستی اور اس وجہ سے کہ نماز اتنی لمبی ہے، لیکن الحمدللہ جب سے پانچ وقت کے فرائض کا ارادہ کیا ہے تب سے تمام نماز یں بغیر چھوڑےپڑھ رہا ہوں۔
واضح رہے کہ فرض نماز وں کے ساتھ پڑھی جانے والی سنن مؤکدہ کی حیثیت مکملات ِفرض کی ہے،یعنی اگر فرض نماز میں کوئی ایسی کمی ہوجائے جس سے نماز اگرچہ فاسد نہ ہوتی ہو ،تاہم ثواب میں کمی کا باعث ہو ، تو اللہ رب العز ت سنتوں کے ذریعہ اس کمی کو پورا فرمادیتا ہے ،پس سستی کی وجہ سے سنتیں مستقل طور پر ترک کرنا نہایت خطرناک ہے،لہٰذا صورت مسئولہ میں فرض نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتما م کیا جائے،اور سنن و وتر مستقل ترک کرنے سے اجتناب کیا جائے،رہی بات صرف فرض ادا کرنے کی ،تو اس طرح فرض کی ادائیگی ذمہ سے ساقط ہوجائے گی ،تاہم اس کا معمول بنانا ثواب میں کمی کا باعث ہوگا،پس سائل کا یہ کہناکہ اگر میں سنت کا ارادہ کروں توفرض بھی مجھ سے چھوٹ جائے گی ،یہ شیطانی وسوسہ ہے ،سائل کو چاہیے کہ اپنے نفس کو اس پر آمادہ کرے اور مسجد میں جماعت کے ساتھ فرض نماز اداکرنے کا پختہ عزم کرے، اور سنتوں کی بھی پابندی کرے، احادیث ِمبارکہ میں ان سنتوں کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔
سنن الترمذی میں ہے:
"عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ثابر على ثنتي عشرة ركعة من السنة بنى الله له بيتا في الجنة: أربع ركعات قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء، وركعتين قبل الفجر".
(أبواب الصلاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ،باب ما جاء فيمن صلى في يوم وليلة ثنتي عشرة ركعة من السنة ما له فيه من الفضل، ج:1، ص:439، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)
ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے سنتوں میں سے بارہ رکعات (نماز) پر پابندی اختیار کی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا: چار رکعات ظہر سے پہلے، دو رکعات ظہر کے بعد، دو رکعات مغرب کے بعد، دو رکعات عشاء کے بعد، اور دو رکعات فجر سے پہلے۔"
اصول الشاشی میں ہے:
"والسنة عبارة عن الطريقه المسلوكة المرضية في باب اللين سواء كانت من رسول الله صلى الله عليه وسلم أو من الصحابة قال عليه السلام(عليكم بسنتي وسنة الخلفاء من بعدي عضوا عليها النواجذ)وحكمها أن يطالب المرء بإحيائها ويستحق اللائمة بتركها إلا أن يتركها بعذر."
(بحث بيان معنى الفرض لغة وشرعا، ص: 379، ط: دار الكتاب العربي، بيروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الجماعة سنة مؤكدة. كذا في المتون والخلاصة والمحيط ومحيط السرخسي وفي الغاية قال عامة مشايخنا: إنها واجبة وفي المفيد وتسميتها سنة لوجوبها بالسنة وفي البدائع تجب على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج."
(كتاب الصلاة ،الباب الخامس في الإمامة، الفصل الأول في الجماعة، ج:1، ص:82، ط: دار الفکر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الصلاة المسنونة فهي السنن المعهودة للصلوات المكتوبة، والكلام فيها يقع في مواضع: في بيان مواقيت هذه السنن، ومقاديرها جملة وتفصيلا... ومقدار جملتها اثنتا عشرة ركعة: ركعتان وأربع، وركعتان وركعتان،وركعتان في ظاهر الرواية،وأما مقدار كل واحدة منها، ووقتها على التفصيل: فركعتان قبل الفجر، وأربع قبل الظهر لا يسلم إلا في آخرهن، وركعتان بعده، وركعتان بعد المغرب، وركعتان بعد العشاء كذا ذكر محمد في الأصل، وذكر في العصر والعشاء إن تطوع بأربع قبله فحسن، وذكر الكرخي هكذا إلا أنه قال في العصر: وأربع قبل العصر، وفي العشاء وأربع بعد العشاء...والأصل في السنن ما روي عن عائشة - رضي الله عنها - عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «من ثابر على اثنتي عشرة ركعة في اليوم والليلة بنى الله له بيتا في الجنة: ركعتين قبل الفجر، وأربع قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد العشاء»، وقد واظب رسول الله صلى الله عليه وسلم عليها ولم يترك شيئا منها إلا مرة أو مرتين لعذر ... و روى جماعة من الصحابة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه «كان يصلي بعد الزوال في كل يوم أربع ركعات» ... وروي في بعضها أنه صلى أربعا، وفي بعضها ركعتين فإن صلى أربعا كان حسنا لحديث أم حبيبة - رضي الله عنها - عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال «من صلى أربع ركعات قبل العصر كانت له جنة من النار» وذكر في الأصل وإن تطوع بعد المغرب بست ركعات كتب من الأوابين وتلا قوله تعالى {فإنه كان للأوابين غفورا} [الإسراء: 25] ، وإنما قال في الأصل: إن التطوع بالأربع قبل العشاء حسن؛ لأن التطوع بها لم يثبت أنه من السنن الراتبة، ولو فعل ذلك فحسن؛ لأن العشاء نظير الظهر في أنه يجوز التطوع قبلها وبعدها...وأما السنة قبل الجمعة وبعدها فقد ذكر في الأصل: وأربع قبل الجمعة، وأربع بعدها، وكذا ذكر الكرخي ... أما الأربع قبل الجمعة؛ فلما روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتطوع قبل الجمعة بأربع ركعات» ؛ ولأن الجمعة نظير الظهر، ثم التطوع قبل الظهر أربع ركعات كذا قبلها".
(كتاب الصلاة، فصل الصلاة المسنونة، ج:1، ص: 284 - 285، ط: دار الكتب العلمية)
الدرالمختار میں ہے:
"(و) السنن (آكدها سنة الفجر) اتفاقا، ثم الأربع قبل الظهر في الأصح، لحديث «من تركها لم تنله شفاعتي» ثم الكل سواء (وقيل بوجوبها، فلا تجوز صلاتها قاعدا) ولا راكبا اتفاقا (بلا عذر) على الأصح."
(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:14، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101402
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن