بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

فقیر کو زکوٰۃ دینا


سوال

محلے کے ایک بھائی نے ایک مسئلہ دریافت کیا، صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ کسی فلاحی ادارے کی طرف سے زکوٰۃ کی مد میں انہیں راشن دیا جاتا رہا، ادارے والوں کو جب ان کی ماہانہ آمدن کا علم ہوا ،تو انہوں نے کہا کہ آپ کی آمدن تو زیادہ ہے، جس وجہ سے آپ اس زکوٰۃ کے مستحق نہیں ہیں ،در اصل وہ خود اور ان کے ایک اور بھائی دونوں اپنے گھرانے کے اخراجات کی کفالت کرتے ہیں ،اور ان کے والد صاحب (مرحوم) انتقال کر چکے ہیں، گھر کرایہ کا ہے، اور کرایہ 10,000 ہے، اور بل وغیرہ 5\6 ہزار تک آجاتا ہے، دونوں بھائیوں کی مجموعی آمدن تقریباً 50,000 تک بنتی ہے، اور پوری آمدن مہینے میں خرچ ہو جاتی ہے، اس کے علاوہ وہ مقروض بھی ہیں. اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ بھائی زکوٰۃ کا راشن لینے کے مستحق ہیں؟ اور ان کے متعلق اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ 

جواب

واضح رہےکہ     اگر کوئی شخص غریب اور ضروت مند ہے  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد اتنی رقم یا سامان نہیں ہے، جس کی قیمت نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی)کے برابر  نہیں ہے، اور نہ  ہی  وہ ہاشمی (سید  ،عباسی) ہے ،تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی،لیکن اگر کسی مسلمان آدمی کے پاس اس  کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد نصاب  کے برابر سونا، چاندی، مال اور پیسے  موجود ہوں تو  اس کو زکوٰۃ دینا  اور اس کے لیے  زکوٰۃ لینا جائز  نہیں ہے، اسی طرح وہ شخص  جس کے پاس کچھ چاندی یا کچھ نقدی ہے یا چاندی یا نقد کے ساتھ تھوڑا سا سونا ہے ، یا ضرورت سے زائد سامان ہے، اور ان سب کو یکجا کریں تو اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوجاتی ہو  تو یہ صاحب نصاب ہے اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے۔

صورت مسئولہ میں   اگر   مذکورہ شخص ہاشمی( سید،عباسی) نہیں  ہے ،اور اس  کے پاس اتنی رقم یا سامان موجود نہ ہے ،جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچ جائے ،اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر رقم   یا سامان موجود ہے،لیکن  اس پر اتناقرضہ ہو کہ قرضہ  ادا کرنے کےبعد اس کے پاس  سا ڑھے باون تولہ چاندی ک رقم باقی نہیں رہتی ،تو مذکورہ شخص صاحب نصاب نہیں لہذا اس کو زکوٰۃ کی رقم دینا صحیح ہے،اس سے صاحب نصاب شخص کی زکوٰۃ  کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی،باقی محض گھر والوں کی پچاس ہزار  کی آمدنی کی وجہ سے غیر مستحق نہیں ہونگے جب کہ گھر  کے اخراجات میں یہ رقم خرچ ہوجاتی ہو اور بچت نہیں ہوتی جو چاندی کے نصاب تک پہنچ جائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية."

(کتاب الزکوۃ ، الباب السابع فی المصارف،1/ 189 ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان كمن له نصاب سائمة لا تساوي مائة درهم."

"(قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها."

(کتاب الزکوٰۃ، باب مصرف الزکوٰۃ والعشر، ج: 2، ص: 348,347، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر.....(هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة."

"(قوله: أدنى شيء) المراد بالشيء النصاب النامي وبأدنى ما دونه فأفعل التفضيل ليس على بابه كما أشار إليه الشارح. والأظهر أن يقول من لا يملك نصابا ناميا."

(کتاب الزکوٰۃ، باب مصرف الزکوٰۃ والعشر، ج: 2، ص: 339، ط: سعید)

فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144508100789

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں