بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فقیر پر صدقہ فطر لازم ہے یا نہیں؟


سوال

"عن ابن عمر قال : فرض رسول الله صلى الله عليه و سلم زكاة الفطر صاعًا من تمر أو صاعًا من شعير على العبد و الحرّ و الذكر و الأنثى و الصغير و الكبير من المسلمين و أمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة". (مشکاۃ المصابیح)

سوال یہ پوچھنا تھاکہ اس حدیث میں توہرمسلمان پہ صدقہ فطرواجب بتایاگیاہے، صاحب نصاب ہونا کیسے شرط ٹھہرا ؟

جواب

صدقات کا مقصودِ اصلی فقیروں کی حاجت روائی ہے؛ اس لیے  واجب  صدقا ت  شریعت نے  مال داروں ہی کے  ذمے  رکھے ہیں؛ تاکہ فقیروں کی حاجت روائی ہو سکے، اگر فقیر  پر بھی لازم ہوں تو  اس کا مقصد فوت ہو جا ئے گا۔   صدقہ فطر کی ایک غرض بھی حدیث شریف میں مسکین کے لیے کھانا بیان کی گئی ہے، یعنی مال دار لوگ مساکین کو صدقہ فطر دیں گے تو ان کے کھانے کا انتظام ہوگا، اگر مساکین کے ذمے صدقہ فطر ہوگا تو اوّلًا وہ دیں گے کہاں سے؟ جس کے پاس مال  ہی نہ ہو، یا صرف اپنے کھانے کا مال ہو، اس کے ذمے صدقہ واجب کردینا تکلیف مالایطاق ہے، اگر اسے مکلف کیا جائے کہ پہلے وہ دوسروں سے صدقہ لے یا کمائے پھر صدقہ دے تو اس میں حرج ہے، بہرحال صدقے کی مشروعیت کی غرض اور قرآن و حدیث کی نصوص سے معلوم ہوا کہ صدقہ واجب ہونے کے لیے کچھ مقدار مال ہونا ضروری ہے، جس کے بعد آدمی پر مال دار ہونے کا حکم لگایا جاسکے، اور اس کے ذمے صدقہ واجب ٹھہرایا جائے، اسی کو صاحبِ نصاب سے تعبیر کیا گیا ہے، کیوں کہ یہ مقدار اتنی ہے کہ اس کے بعد آدمی محتاج نہیں سمجھا جاتا۔

چناں چہ حدیث شریف میں ہے "مسند أحمد بن حنبل" (2/ 230)کی  روایت ہے  جس کو امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے بھی تعلیقاً ذکر کیا ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "لا صدقة إلا عن ظهر غني".

یعنی صدقہ صرف مال دار پر ہی واجب ہوتا ہے۔

اگر کوئی آدمی غریب  ہے، صاحبِ نصاب نہیں ہے، تو اس پرصدقہ فطر شرعی اعتبار سے واجب تو نہیں ہے، لیکن اگر وہ اپنی خوشی سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہے تو ادا کرسکتا ہے اور اسے ثواب بھی ملے گا۔

حدیث شریف کے مطابق اگر فقیر صدقہ فطر ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے زیادہ عنایت فرماتے ہیں ، جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا ہے۔

-صحيح مسلم ـ مشكول(3 / 93):

"عن أبى هريرة قال أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل فقال: يا رسول الله أي الصدقة أعظم؟ فقال: « أن تصدق وأنت صحيح شحيح تخشى الفقر وتأمل الغنى ولاتمهل حتى إذا بلغت الحلقوم؛ قلت: لفلان كذا، ولفلان كذا، ألا وقد كان لفلان".

مشکوۃ شریف میں ہے :

"وعن عبد الله بن ثعلبة أو ثعلبة بن عبد الله بن أبي صعير عن أبيه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " صاع من بر أو قمح عن كل اثنين صغير أو كبير حر أو عبد ذكر أو أنثى . أما غنيكم فيزكيه الله . وأما فقيركم فيرد عليه أكثر ما أعطاه". رواه أبو داود".

حضرت عبداللہ بن ثعلبہ یا حضرت ثعلبہ بن عبداللہ بن ابی صعیر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: " صدقہ فطر واجب ہے گیہوں میں سے ایک صاع دو آدمیوں کی طرف سے (کہ ہر ایک کی طرف سے نصف نصف صاع ہو گا) خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، آزاد ہوں یا غلام، مرد ہوں یا عورت، غنی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ (صدقہ فطر دینے کی وجہ سے) اسے پاکیزہ بنا دیتا ہے اور فقیر کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس سے زیادہ دیتا ہے جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا " ۔ (ابو داؤد)

مذکورہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ فقیر پر صدقہ فطر واجب نہیں ۔ البتہ اگر وہ ادا کرےگا تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے زیادہ دیتا ہے جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا۔نیز فقہاء کی عبارات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ فقیر پر صدقہ فطر واجب نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"باب صدقة الفطر علی کلّ حرّ مسلم و لو صغیرًا مجنونًا ذي نصاب فاضل عن حاجته الأصلیة و إن لم ینم، و به أي بھذا النصاب تحرم الصدقة، و تجب الأضحیة." 

( کتاب الزکوۃ، باب صدقۃ الفطر، مکتبہ زکریا دیوبند ۳/ ۳۱۲-۳۱۳)

"تجب علی حرّ مسلم مکلّف مالك لنصاب أو قیمته و إن لم یحل علیه الحول." (طحطاوی۳۹۴، )

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109203349

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں