کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری دکان پر بعض اوقات جو فقیر خیرات مانگنے کے لیے آتے ہیں، میں ان کو دو چار روپے خیرات دیتا ہی ہوں۔ کسی کو خیرات دینے کے بعد یہ بھی کہہ دیتا ہوں کہ اگر آپ کے پاس کھلی ریزگاری ہے تو مجھے دے دیں، کسی کے پاس مثلاً اٹھانوے روپے ہیں تو میں اپنی طرف سے سو روپے کا نوٹ دے دیتا ہوں۔ اور دو روپے مزید خیرات کی نیت کر لیتا ہوں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ صورت سود میں تو داخل نہیں ہے؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کا فقیر کو سو رپے کا نوٹ دینا اور بلا شرط 98 روپے کھلے لینااور باقی دو رپے میں صدقہ کی نیت کرنا درست ہے ،یہ سود نہیں ہے ۔
وفي الفتاوى الهندية:
"هبة الدين ممن عليه الدين وإبراءه يتم من غير قبول من المديون ويرتد برده ذكره عامة المشايخ رحمهم الله تعالى، وهو المختار، كذا في جواهر الأخلاطي."
(4/ 384ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144205200216
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن