بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فقیر آدمی کااپنی زمین کاعشرخود استعمال کرنا


سوال

1۔چند آدمی عشری زمین میں شریک ہیں، مذکورہ شرکاءمیں سے ایک شریک فقیر اورمستحق زکوٰۃ ہے، کیا باقی شرکاء قبل از تقسیم مجموعہ پیداواركا عشر اپنےاس فقیر مستحق زکوٰۃ شریک کو دےسکتےہیں یانہیں ؟

2۔نیز فقیر شخص اپني پیداوار کا عشر خود استعمال کرسکتا ہے یانہیں ؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شریک اپنے حصے کا عشر ادا کرنے کے بعد اتنے مال کا مالک نہ ہو،جو نصاب کی مالیت کو پہنچتاہو ،یا نصاب کے برابر تو ہو ،لیکن حوائجِ اصلیہ سے زائد نہ ہو تو وہ مستحق ہو گا،ایسے شخص کو دوسرے شرکاء اپنا عشر دے سکتے ہیں ۔

2۔عشر کے وجوب کے لیے صاحبِ نصاب ہونا شرط نہیں ،بلکہ عشری زمین کی جملہ پیداوار پر عشر لازم ہوتاہے،لہذا فقیر بھی اپنا عشر خود استعمال نہیں کر سکتا ہے،مستحق کو مالک بنا کر دینا ضروری ہے،اگرچہ وہ اس کے بعد خود مستحق بن رہا ہو۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها أي من شرائط المحلية وجود الخارج حتى أن الأرض لو لم تخرج شيئا لم يجب العشر؛ لأن الواجب جزء من الخارج وإيجاب جزء من الخارج ولا خارج محال ومنها أن يكون الخارج من الأرض مما يقصد بزراعته نماء الأرض وتستغل الأرض به عادة فلا عشر في الحطب والحشيش والقصب الفارسي."

(كتاب الزكاة،فصل الشرائط المحلية، ج:2، ص:58، ط:دار الكتب العلمية)

 وفیہ ایضاً:

"وكذا النصاب ليس بشرط لوجوب العشر فيجب العشر في كثير الخارج وقليله."

(كتاب الزكاة،فصل الشرائط المحلية، ج:2، ص:59، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: أي مصرف الزكاة والعشر) ... وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني."

( کتاب الزکاۃ ،باب مصرف الزكاة والعشر،ج:2 ،ص:339،ط:سعید) 

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكما لايجوز صرف الزكاة إلى الغني لايجوز صرف جميع الصدقات المفروضة والواجبة إليه كالعشور والكفارات والنذور وصدقة الفطر؛ لعموم قوله تعالى: { إنما الصدقات للفقراء}، وقول النبي صلى الله عليه وسلم: {لاتحل الصدقة لغني}؛ ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث؛ لكونه غسالة الناس؛ لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، ولايجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة، والحاجة للفقير لا للغني".

(کتاب الزکاۃ،ج:2،ص:47،ط:رشیدية)

البحر الرائق میں ہے:

" وفي اصطلاح الفقهاء ما ذكره المصنف (قوله هي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى) لقوله تعالى: وآتوا الزكاة۔ (البقرة: 43) والإيتاء هو التمليك، ومراده تمليك جزء من ماله، وهو ربع العشر أو ما يقوم مقامه... والمراد من إيتاء الزكاة إخراجها من العدم إلى الوجود كما في قوله: أقيموا الصلاة۔ (الأنعام: 72) كذا في المعراج."

(کتاب الزکاۃ: 2/ 201،دارالکتاب الإسلامي،بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101999

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں