بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عالم کے لیے فاقہ کشی کی حالت میں سود کی رقم لینے کا حکم


سوال

عالم کے لیے فاقہ کشی کی صورت میں سود کی رقم کا لینا جائزہے یا نا جائز؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی بھی مسلمان شخص نصاب کا مالک نہیں ہےاور وہ غریب اور محتاج ہے ،تو وہ  سودی رقم لے کر استعمال کرسکتاہے،کیوں کہ سودی رقم اگر مالک کو واپس کرنا ممکن نہیں ہے،تو اس  کامستحق مسلمان غریب اور فقیر ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"حتى لو تعين الحرام مدفعا للهلاك يحل كالميتة والخمر عند الضرورة، وتمامه في البحر...وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر... وقيل: يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة، وهو الفتوى. اهـ ."

(كتاب الطهارة،باب المياه،فروع التداوي بالمحرم،210/1،ط:سعيد)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"قلت: قال علماؤنا إن سبيل التوبة مما بيده من الأموال الحرام إن كانت من ربا فليردها على من أربى عليه، ومطلبه إن لم يكن حاضرا، فإن أيس من وجوده فليتصدق بذلك عنه."

(سورة البقرة،آية:279، 364/3،ط:دار الكتب المصرية،القاهرة)

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(كتاب البيع،باب البيع الفاسد،مطلب فيمن ورث مالا حراما،99/5،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والسبيل في المعاصي ردها وذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه وبالتصدق به إن لم يعرفه ."

(كتاب الكراهية،الباب الخامس عشر في الكسب،349/5،ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100079

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں