بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فنائے مصر میں اقامتِ جمعہ کا حکم / معارف السنن کی ایک عبارت کی ایک عبارت پر اشکال اور اس کا جواب


سوال

 فقہاء نے فناء مصر والوں پر جمعہ کے واجب ہونے  کی صراحت کی ہے،  آیا فناء مصر میں اقامت جمعہ ہوسکتا ہے یا نہیں؟ جب کہ حضرت بنوری ؒ نے 'معارف السنن' میں اقامت جمعہ اور صحت جمعہ میں فرق بیان کیا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کی نماز کے لیے بعض شرائط  شرائطِ صحت  ہیں، یعنی جمعہ کے درست ہونے کے لیے جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، اور بعض  شرائط شرائطِ وجوب ہیں،  جس شخص میں وہ شرائط پائی جائیں  اس پر جمعہ کی ادائیگی واجب ہوتی ہے، فناء مصر کا تعلق جمعہ کی صحت کی شرائط سے ہے ،اس لیے جس طرح شہر میں جمعہ قائم کیا جا سکتا ہے اسی طرح فناء مصر میں بھی جمعہ قائم کیا جا سکتا ہے، لہٰذا سوال کی یہ عبارت کہ "فقہاء نے فناء مصر والوں پر جمعہ کے واجب ہونے کی صراحت کی ہے" قابلِ اشکال ہے، کیوں کہ فقہاء نے فناء مصر والوں پر علی الاطلاق جمعہ کے وجوب  کی صراحت نہیں کی ہے، بلکہ فناء مصر میں رہنے والے شخص پر جمعہ اس صورت میں واجب ہوگا جب شرائطِ صحت کے ساتھ ساتھ شرائطِ وجوب بھی پائی جا رہی ہوں۔

باقی معارف السنن میں اقامتِ جمعہ اور صحتِ جمعہ کا فرق  ان الفاظ کے ساتھ نہیں ملا، متعلقہ عبارت شامل کر کے سوال دوبارہ ارسال فرمائیں۔

"الدر المختار مع رد المحتار "میں ہے:

"(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:

الأول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء مجتبى لظهور التواني في الأحكام وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض  يقدر على إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى.

وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه فليحفظ (أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا  كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجي.

(قوله ويشترط إلخ) قال في النهر: ولها شرائط وجوبا وأداء منها: ما هو في المصلى. ومنها ما هو في غيره والفرق أن الأداء لا يصح بانتفاء شروطه ويصح بانتفاء شروط الوجوب ونظمها بعضهم فقال:

وحر صحيح بالبلوغ مذكر … مقيم وذو عقل لشرط وجوبها

ومصر وسلطان ووقت وخطبة … وإذن كذا جمع لشرط أدائها...

(قوله والمختار للفتوى إلخ) اعلم أن بعض المحققين أهل الترجيح أطلق الفناء عن تقديره بمسافة وكذا محرر المذهب الإمام محمد وبعضهم قدره بها وجملة أقوالهم في تقديره ثمانية أقوال أو تسعة غلوة ميل ميلان ثلاثة فرسخ فرسخان ثلاثة سماع الصوت سماع الأذان والتعريف أحسن من التحديد لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره...

أقول: وبه ظهر صحتها في تكية السلطان سليم بمرجة دمشق، وكذا في مسجده بصالحية دمشق فإنها من فناء دمشق بما فيها من التربة بسفح الجبل وإن انفصلت عن دمشق بمزارع لكنها قريبة لأنها على ثلث فرسخ من البلدة."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:137-139، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں