بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فیملی ٹیکس ادا کرنے کے باوجود زکوۃ ادا کرنے کا حکم


سوال

میرے  پاس پاکستانی پاسپورٹ ہے، میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ  جس ملک میں گزشتہ دس سال سے رہائش پذیر ہوں وہ مسلمان ملک ہے،  وہاں نیشنیلٹی نہیں ملتی اور پچھلے چار سال سے فیملی ٹیکس اور  ورکر ٹیکس کی مد میں سالانہ پیسے جو وصول کیے جاتے ہیں وہ پیسے ہماری سالانہ زکاۃ کے حساب سے تقریباً دس گناہ زیادہ ہیں.  کیا ہمیں زکاۃ الگ سے ادا کرنا ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ زکاۃ عبادت ہے، اس کا ٹیکس سے کوئی تعلق نہیں، ٹیکس کوئی بھی حکومت اپنے اخراجات سامنے رکھ  کر مخصوص قوانین کے مطابق عوام سے وصول کرتی ہے، لہذا اگر زکاۃ واجب ہو تو ٹیکس دینے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی،  بلکہ اس کی ادائیگی علیحدہ سے کرنا ضروری ہے، اور زکاۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے بغیر کسی عوض کے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو  زکاۃ کا مالک بناکر دینا ضروری ہے، اس لیے ٹیکس کی مد میں کاٹی جانے والی رقم (اگرچہ وہ جائز مصارف مثلاً تعمیرات اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ میں خرچ ہورہی ہو، تب بھی اس رقم) کی ادائیگی کے وقت زکاۃ کی نیت سے دینے سے بھی زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص اگر صاحبِ نصاب ہے تو  اس کے مال پر سال گزرنے کے بعد کل مال میں سے چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد) زکوۃ الگ سے ادا کرنا ضروری ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

کیا ٹیکس ادا کرنے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی؟

کیا حکومتی ٹیکس زکات سے ادا کر سکتے ہیں؟

الفقه الإسلامي و أدلته للزحيلي میں ہے:

"سابعاً ـ هل تجزئ الضريبة المدفوعة للدولة عن الزكاة؟

لاتجزئ أصلاً الضريبة عن الزكاة؛ لأن الزكاة عبادة مفروضة على المسلم شكراً لله تعالى وتقرباً إليه، والضريبة التزام مالي محض خال عن كل معنى للعبادة والقربة، ولذا شرطت النية في الزكاة ولم تشرط في الضريبة، ولأن الزكاة حق مقدر شرعاً، بخلاف الضريبة فإنها تخضع لتقدير السلطة، ولأن الزكاة حق ثابت دائم، والضريبة مؤقتة بحسب الحاجة، ولأن مصارف الزكاة هي الأصناف الثمانية: الفقراء والمساكين المسلمون إلخ، والضريبة تصرف لتغطية النفقات العامة للدولة. وللزكاة أهداف روحية وخلقية واجتماعية إنسانية، أما الضريبة فلايقصد بها تحقيق شيء من تلك الأهداف". (الفَصْلُ الأوَّل: الزَّكاةُ، المطلب الثاني ـ أحكام متفرقة في توزيع الزكاة، ٣ / ١٩٧٩، ط: دار الفكر).

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2 / 289):

"قال في التنجيس والولوالجية: السلطان الجائر إذا أخذ الصدقات، قيل: إن نوى بأدائها إليه الصدقة عليه لايؤمر بالأداء ثانياً؛ لأنه فقير حقيقةً.

ومنهم من قال: الأحوط أن يفتى بالأداء ثانياً، كما لو لم ينو؛ لانعدام الاختيار الصحيح، وإذا لم ينو، منهم من قال: يؤمر بالأداء ثانياً. وقال أبو جعفر: لا؛ لكون السلطان له ولاية الأخذ فيسقط عن أرباب الصدقة، فإن لم يضعها موضعها لايبطل أخذه، وبه يفتى، وهذا في صدقات الأموال الظاهرة، أما لو أخذ منه السلطان أموالاً مصادرةً ونوى أداء الزكاة إليه، فعلى قول المشايخ المتأخرين يجوز. والصحيح أنه لا يجوز وبه يفتى؛ لأنه ليس للظالم ولاية أخذ الزكاة من الأموال الباطنة. اهـ.

أقول: يعني وإذا لم يكن له ولاية أخذها لم يصح الدفع إليه وإن نوى الدافع به التصدق عليه؛ لانعدام الاختيار الصحيح، بخلاف الأموال الظاهرة؛ لأنه لما كان له ولاية أخذ زكاتها لم يضر انعدام الاختيار ولذا تجزيه سواء نوى التصديق عليه أو لا، هذا، وفي مختارات النوازل: السلطان الجائر إذا أخذ الخراج يجوز، ولو أخذ الصدقات أو الجبايات أو أخذ مالا مصادرة إن نوى الصدقة عند الدفع قيل يجوز أيضا وبه يفتى، وكذا إذا دفع إلى كل جائر نية الصدقة؛ لأنهم  بما عليهم من التبعات صاروا فقراء والأحوط الإعادة اهـ وهذا موافق لما صححه في المبسوط، وتبعه في الفتح، فقد اختلف التصحيح والإفتاء في الأموال الباطنة إذا نوى التصدق بها على الجائر وعلمت ما هو الأحوط.

قلت: وشمل ذلك ما يأخذه المكاس؛ لأنه وإن كان في الأصل هو العاشر الذي ينصبه الإمام، لكن اليوم لاينصب لأخذ الصدقات بل لسلب أموال الناس ظلماً بدون حماية، فلاتسقط الزكاة بأخذه، كما صرح به في البزازية. فإذا نوى التصديق عليه كان على الخلاف المذكور (قوله: لأنهم بما عليهم إلخ) علة لقوله قبله: "الأصح الصحة"، وقوله: بما عليهم تعلق بقوله: فقراء".  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111200123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں