آج کل پاکستان میں ”فیملی تکافل“ کے نام سے کئی ادارے کام کر رہے ہیں اور سب کے سب نے کسی نہ کسی مفتی صاحب کی سربراہی میں شریعہ بورڈ بھی مقرر کیا ہوا ہے، یہ تکافل لینا اور ان اداروں کے لیے کام کرنا کیسا ہے ؟
جمہور علماءِ کرام کے نزدیک کسی بھی قسم کی بیمہ (انشورنس) پالیسی سود اور قمار (جوا) کا مرکب ومجموعہ ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، مروجہ انشورنس کے متبادل کے طور بعض حضرات نے ”تکافل “ کے نام سے ایک نظام متعارف کرایا ہے، لیکن فیملی تکافل یا اس جیسی جتنی دیگر پالیسیاں ہیں، ان میں بھی وہی خرابیاں (سود، جوا اور غرر) پائی جاتی ہیں جو انشورنس میں پائی جاتی ہیں؛ اس لیے انشورنس کی طرح تکافل کرانا بھی ناجائز ہے اور اس کمپنی میں ملازمت بھی جائز نہیں ہے۔
تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
تکافل ماڈل اور اس کی شرعی خرابیاں
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212200802
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن