بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کوئی ڈھانچا نہیں محض نقشے کی بنیاد پر دکانوں کی فروخت کا حکم


سوال

 ایسی ریئل اسٹیٹ کمپنی میں جاب کرنا کیسا ہے جو کہ پہلے پراجیکٹ (عمارت) کا نقشہ بناتی ہے، جس میں کئی دکانیں ہوتی ہیں جو کہ بظاہر وجود میں نہیں ہو تیں،وہ کمپنی مثال کے طور پر ان دکانوں کو 1 لاکھ میں فروخت کرتی ہے ، پھر انہی دکانوں کو آگے 2 لاکھ میں فروخت کرتی ہے جب کہ وہ وجود میں ہی نہیں ہوتی، ایک فرضی نقشہ کی بنیاد پر فروخت کر دی جاتی ہیں،چوں کہ ایسا لین دین ناجائز معلوم ہوتا ہے تو ایسی کمپنی میں فائنانس کی جاب کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس  پلاٹ پر ابھی تک تعمیر نہ ہوئی ہو، اُس کی دکانیں یا مکانات جو صرف نقشے کی حد تک موجود ہوں، اُس کا باقاعدہ سودا کرنا درست نہیں ہوتا؛ کیوں کہ جو چیز ملکیت میں نہ ہو  اور معدوم ہو  اس کو فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، جواز  کی دو صورتیں ہیں:

  ایک صورت یہ ہے کہ جو مکان یا دکان لوگوں کو فروخت کی جارہی ہو   اس کا کچھ نہ کچھ اسٹرکچر یعنی بنیادی ڈھانچا  بن چکا ہو، ایسی صورت میں اُس کا سودا کیا جاسکتا ہے۔

اور دوسری صورت یہ ہے کہ  جس دکان یا مکان کا ڈھانچہ بھی نہ بنا ہو  مثلاً ابھی ایک منزل بھی نہیں بنی اور تیسری منزل کی دکانیں یا مکانات بیچی جا رہی ہوں تو یہ سودا جائز نہیں ہے، اس صورت میں وعدۂ بیع  (خریداری کا وعدہ)  کیا جاسکتا ہے،  یعنی صرف بکنگ کی جاسکتی ہے   کہ  مثلاً    فلاں مکان فلاں کو  فروخت کیا جائے گا، اور اس بکنگ کی مد میں اس سے ایڈوانس رقم بھی لینا جائز ہو گا۔

لہذا صور تِ  مسئولہ میں جس عمارت کا صرف نقشہ  ہے بنیادی طور پر ڈھانچا وغیرہ نہیں بنا تو ایسی صور ت میں ان دکانوں کی خریدوفروخت بھی جائز نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کمپنی میں ملازمت جائز ہے، لیکن جس عمارت کا ڈھانچا بن چکا ہو تو اس حصے کی خریدوفروخت بھی جائز ہے اور ملازمت بھی جائز ہے۔ 

 البتہ یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ وجود میں آنے سے قبل فلیٹ  یا دکان وغیرہ کی حتمی خرید و فروخت کی بجائے وعدہ بیع کرلیاجائے، اور وعدۂ بیع کی صورت میں کچھ رقم ایڈوانس کے طور پر لے لی جائے اور جب وہ فلیٹ یا دکان وغیرہ  وجود میں آجائے، پھر مکمل طور پرخرید و فروخت کی بات کرلی جائے، اور اس کے حوالےسے متعلق  کوئی کام ہو تو اس کی جاب  جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لاينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحاً. قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعاً بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى".

( كتاب البیوع، مطلب البیع بالتعاطى،ج: ۴، صفحہ: ۵۱۶،   ط: ایچ، ایم، سعید)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم الخ."

(کتاب البیوع،فصل فی الشرائط الذی یرجع الی المعقود علیہ،ج:۵، صفحہ: ۱۳۸، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502102120

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں