ایک شخص دو مدرسوں کا منتظم اور مہتمم ہے، ایک مدرسہ وقف کی زمین پر قائم کیا ہے، جب کہ دوسرا مدرسہ اپنی ذاتی زمین پر بنا رکھا ہے، جس میں اس شخص کی رہائش بھی ہے اور تقریباً 70 سے زائد مسافر طلباء وطالبات کی تعلیم، رہائش، کھانے وغیرہ کا مکمل انتظام ہے۔
وہ شخص دونوں جامعات کی جملہ ضروریات کا ذمہ دار ہے، اس کی بیوی بھی بنات کے مدرسہ میں پڑھاتی ہے اور طلباء کے لیے کھانا وغیرہ پکانے میں بھی حصہ لیتی ہے، وہ شخص جب صحت مند اور تندرست تھا اس وقت انتظام و اہتمام کے ساتھ ساتھ حفظ کی کلاس بھی مکمل وقت پڑھاتا تھا اور مدرسہ سے تنخواہ بھی نہ لیتا تھا، لیکن اب فالج کی وجہ سے کچھ وقت پڑھا سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان حالات میں وہ شخص مدرسہ کی آمدن سے اپنے گھر کا نظام (بچوں کی خوراک بجلی کابل اور دوائی وغیرہ ) چلا سکتا ہے؟ یا کتنی تنخواہ لے سکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص چوں کہ مدرسہ کے انتظام اور اہتمام کو سنبھال رہا ہے اور مدرسہ میں کچھ وقت تدریسی خدمات بھی انجام دے رہا ہے، لہٰذا اس شخص کے لیے کمیٹی یا شوری کے مشورہ سے تنخواہ مقرر کی جائے۔
اور اگر کمیٹی یا شوریٰ نہیں ہے تو مدرسہ کے استادوں کو اعتماد میں لے کر اپنے لیے تنخواہ جاری کروائے اور ماہانہ وہ تنخواہ وصول کرے۔
الدر المختارمع رد المحتار میں ہے:
"(ويبدأ من غلته بعمارته) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم.
(قوله: ثم ما هو أقرب لعمارته إلخ) أي فإن انتهت عمارته وفضل من الغلة شيء يبدأ بما هو أقرب للعمارة وهو عمارته المعنوية التي هي قيام شعائره قال في الحاوي القدسي: والذي يبدأ به من ارتفاع الوقف أي من غلته عمارته شرط الواقف أولا ثم ما هو أقرب إلى العمارة، وأعم للمصلحةكالإمام للمسجد، والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخرالمصالح."
(كتاب الوقف: ج:4، ص:366، ط: سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144406101346
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن