بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فلیٹ تعمیر ہونے سے پہلے خریدنے اور کرایہ پر دینے کا حکم


سوال

1۔ آج کل کوئی کمپنی کسی بلڈنگ کا نقشہ تیار کرتی ہے اور اس کی تعمیر سے پہلے ہی اس کے فلیٹ یعنی منزل فروخت کردیتی ہے تو کیا محض نقشہ/ماڈل کی بنیاد پر منزل کی تعمیر سی پہلے اس کی خرید و فروخت جائز ہے یا نہیں؟

2۔نیز اسی طرح کمپنی بلڈنگ کی تعمیر سے پہلے محض نقشہ /ماڈل کی بنیاد پر فلیٹ کی قیمت لے لیتی ہے ، پھر تقریبا تین یاپانچ سال تك يا  جب تک فلیٹ تعمیر ہوجاتا ہےاس فلیٹ کا کرایہ مشتری کو دیتی ہے، تو کیا اس فلیٹ کو خریدنا اور کمپنی سے تین یاپانچ سال تک یا جب تک وہ فلیٹ یا بلڈنگ کی تعمیر نہیں ہو جاتی کرایہ لیناجائز ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ جس  بلڈنگ  كی ابھی تک تعمیر نہ ہوئی ہو، اُس کے  فلیٹ جو صرف نقشے کی حد تک موجود ہوں، ان کی باقاعدہ خرید و فروخت  كرنا جائز نہیں ہے؛  اس لیے کہ یہ ایک معدوم چیز کی بیع ہے اور معدوم چیز کی بیع شرعا باطل ہے،البتہ  جواز  کی دو صورتیں ہیں:

1۔  ایک یہ ہے کہ جو مکان  لوگوں کو فروخت کئےجارہے ہوں اس کا کچھ نہ کچھ اسٹرکچر یعنی بنیادی ڈھانچاوغیرہ  بن چکا ہو، ایسی صورت میں اُس کا سودا کیا جاسکتا ہے۔

2۔  جس مکان کا ڈھانچہ بھی نہ بنا ہو  مثلاً ابھی ایک منزل بھی نہیں بنی اور تیسری منزل کی مکانات بیچے جا رہی ہوں تو یہ سودا جائز نہیں ہے، البتہ اس صورت میں وعدۂ بیع  (خریداری کا وعدہ)  کیا جاسکتا ہے،  یعنی صرف بکنگ کی جاسکتی ہے   کہ  مثلاً    فلاں فلیٹ فلاں کو  فروخت کیا جائے گا، اور اس بکنگ کی مد میں اس سے ایڈوانس رقم بھی لینا جائز ہو گا۔

2۔نیز جو منزل اب تک تیار ہی نہ ہوئی ہو اور اُس کا ڈھانچا بھی کھڑا نہ ہوا ہو اُس مکان کا کرایہ وصول کرنا کسی صورت جائز نہیں؛ کیوں کہ کرایہ داری کے معاملہ میں مالک مکان  کرایہ دار کو کسی منفعت کا مالک بناتا ہے، اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب منفعت وصول کرنے کے لیے فلیٹ  کا وجود ہو، اگر فلیٹ کا وجود ہی نہ ہو گا تو کرایہ داری کا معاملہ ہی درست نہیں ہو گا اور کرایہ وصول کرنا بھی درست نہیں ہو گا۔

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم الخ."

(کتاب البیوع،فصل فی الشرائط اللذی یرجع الی المعقود علیه،ج:5ص:138،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لاينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحاً. قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعاً بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى".

(كتاب البیوع،ج:4،ص:516،ط: سعید)

مجمع الأنهر میں ہے:

"(هي) أي الإجارة (بيع منفعة) احتراز عن بيع عين (معلومة) جنسًا وقدرًا (بعوض)."

(کتاب الإجارۃ،ج:2،ص:368،ط:المطبعة العامرة،تركيا)

الدرمع الرد میں ہے:

"وشرعاً (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثياباً أو أواني؛ ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو داراً لا ليسكنها أو عبداً أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين".

(كتاب الإجارة،ج:6،ص:4،ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144403101624

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں