بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فلاحی انجمن کازکوۃ کی ادائیگی میں مصلحلت کے پیش نظر تاخیر کرنا


سوال

میں ایک فلاحی  انجمن کاذمہ دار ہوں، انجمن کی مجلسِ انتظامیہ کے فیصلہ کے مطابق دوران سال جمع شدہ زکوۃ کی رقم کا 70 فیصد ماہ رمضان میں تقسیم کردیا  جاتا  ہے، اور 30 فیصد روک لیا  جاتا ہے،تاکہ دوران سال ضرورت مندوں کےکام آئے ،  ہماری  مسجد کے امام صاحب نے اپنے درس کے دوران بتایا کہ ہر ادارہ بحیثیت وکیل ہونے کے مستحقِ زکوۃ کو زکوۃ کی رقم پہنچانے کا ذمہ دار ہے، جب تک زکوۃ کی رقم مستحق تک نہیں پہنچتی اس وقت تک زکوۃ دینے والے کاثواب معلق رہتاہے،اور وکیل گناہ گار ہوگا، براہِ  کرم رہنمائی فرمائیے کہ ہمار ا یہ عمل کہ 30 فیصد روک کر اس کو سال کے دوران تقسیم کرنا درست ہے یانہیں؟

وضاحت: یہ  انجمن زکوۃ دینے والے کی طرف سے وکیل ہے کہ زکوۃ دینے والے زکوۃ کی رقم دیتے ہیں اور  ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ فلاں بندہ غریب ہے، اس کو بھی دے دینا، اور انجمن  کی انتظامیہ  بھی طے کرتی ہے کہ فلاں فلاں بندہ فقیر ہے، اس طرح سے انجمن والوں  کے پاس ایک فہرست فقراء کی تیار ہوجاتی ہے، تو  یہ انجمن والے جمع شدہ زکوۃ کی رقم میں سے 70 فیصد ماہ رمضان میں ان  فقراء کو اور بقیہ 30 فیصد رمضان کے بعد سال بھر میں ضرورت مندوں کودیتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ زکوٰۃ تقسیم کرنے والا  ادارہ یا انجمن  زکوۃ دینے والے کے وکیل ہوتے ہیں، اس  لیے   جب تک وہ ادارہ  زکوۃ کی رقم کو فقراء تک نہ پہنچائےتو محض انجمن کے حوالے کرنے سے  زکوۃ دینے والے کی زکوۃ ادا نہیں ہوتی ہے۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں  یہ انجمن  چوں کہ  زکوۃ دینے والے کی طرف سے وکیل ہے، لہٰذا جب تک یہ زکوۃ کی رقم کو مستحقین پر خرچ نہیں کرے گی اس وقت تک زکوۃ دینے  والے کی زکوۃ ادا نہیں ہو گی،باقی انجمن کا 30 فیصد مالِ زکوۃ کو روک کر  سال  بھر  میں مستحق ضرورت مندوں کی حاجت پوری کرنے کے لیے رکھ لینا  چوں کہ فقراء کی  حاجات اور ان ہی کی مصلحت کے پیشِ نظر ہے اور زکوٰۃ دہندہ میں سے بعض سال بھر تقسیم کرتے ہیں، لہذا  اگر زکوۃ دینے والے کی طرف سے اس کی  اجازت ہو تو  اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 

البحر الرائق میں ہے:

"وبه يعلم حكم من يجمع للفقراء، ومحله ما إذا لم يوكلوه ...وأشار المصنف إلى أنه لا يخرج بعزل ما وجب عن العهدة بل لا بد من الأداء إلى الفقير لما في الخانية لو أفرز من النصاب خمسة ثم ضاعت لاتسقط عنه الزكاة، و لو مات بعد افرازھا کانت میراثاعنہ،ا ھ۔بخلاف ما إذا ضاعت في يد الساعي لأن يده كيد الفقراء، كذا في المحيط."

(کتاب الزکاۃ،ج:2،ص:369،ط:دارالکتب العلمیة)

اور فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وتجب على الفور عند تمام الحول حتى يأثم بتأخيره من غير عذر، وفي رواية الرازي على التراخي حتّى يأثم عند الموت ، والأول أصح كذا في التهذيب."

(کتاب الزکاۃ،ج:1،ص:170،ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں