بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 جمادى الاخرى 1446ھ 12 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

فلاحی ادارے کو زکوٰۃ دینا


سوال

 کیا زکوۃ کسی شخص کی بجاۓ کسی ادارے یعنی ہسپتال وغیرہ کو دینا جائز ہے۔؟ کیونکہ بہت سے فلاحی ہسپتالوں کے مالی معاملات صرف زکوۃ و خیرات سے چلتے ہیں۔

جواب

زکاۃ ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے،  لہٰذا جو ادارہ یا ہسپتال کسی مسلمان  غیر ہاشمی (سید یا عباسی وغیرہ)، مستحقِ زکاۃ  کو زکاۃ کا مالک بناکر زکاۃ اسے دیتا ہواس ادارے / ہسپتال کو زکاۃ دینا درست ہے، اور جو ادارہ / ہسپتال اس کا اہتمام نہ کرتاہو  اسے زکاۃ دینا درست نہیں ہے۔ اور جہاں شبہ ہو وہاں زکاۃ دینے کی بجائےخود مستحق تلاش کرکےاسے  یا کسی مستند دینی ادارے کو زکاۃ دی جائے،مذکورہ ضابطے کی روشنی میں اداروں کا نظام دیکھ کر زکاۃ دینے کے جواز یا عدمِ جواز کا فیصلہ کیا جاسکتاہے۔

زکات کے مستحق سے مراد وہ شخص ہے جس کی ملکیت میں بنیادی ضرورت اور واجب الادا قرض و اخراجات منہا کرنے کے بعد   ضروری استعمال کے سامان سے زائد اتنا مال  موجود نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہو۔

الفتاوى الهندية  میں ہے:

"ولايجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين، ولايشترى بها عبد يعتق."

(كتاب الزكوة، الباب السابع فى المصارف، 188/1، ط:مكتبه رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں