بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی سنتوں کی ادائیگی کے دوران وقت ختم ہونے کا حکم


سوال

میری فجر کی نماز جماعت سےرہ  گئی۔ میں گھر پڑھنےلگا تو سنت پڑھنے کے دوران ہی مسجد سے وقت ختم ہونے کا اعلان ہو گیا۔ کیا میں نماز پوری پڑھوں یا سورج طلوع ہونے پر پوری نماز قضا کرکے پڑھوں۔

جواب

صورت مسئولہ میں جب سنتیں پڑھتے ہوئے  فجر کا وقت ختم ہوگیا اور مکروہ وقت داخل ہوگیا تو  مکروہ وقت ختم ہونے کے بعد فجر کے فرض قضاء کیے جائیں۔نیز فجر کے فرض کے ساتھ فجر کی سنتیں بھی قضاء کرنا ثابت ہے تو مکروہ وقت کے بعد فجر کی سنتوں کا بھی اعادہ کرلیا جائے کیونکہ جو سنت شروع کی تھیں  مکروہ وقت داخل ہونے کی وجہ سے ناقص ادا ہوئیں، فرض سے پہلے سنتیں پڑھی جائیں پھر فرض پڑھے جائیں۔

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"ثلاثة أوقات لا يصح فيها شيء من الفرائض والواجبات التي لزمت في الذمة قبل دخولها" أي الأوقات المكروهة

"والواجبات التي لزمت في الذمة قبل دخولها" كالوتر والنذر المطلق وركعتي الطواف وما أفسده من نفل شرع فيه في غير وقت مكروه."

(کتاب صلاۃ، فصل فی الاوقات المکروہۃ ص نمبر ۱۸۸،دار الکتب العلمیۃ)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"والأوقات الثلاثة" المذكورة "يكره فيها النافلة كراهة تحريم ولو كان لها سبب كالمنذور وركعتي الطواف" وركعتي الوضوء وتحية المسجد والسنن الرواتب»

والسنن الرواتب" كأن يصلي سنة الفجر وقت الطلوع ولا يظهر في غيرها لأن وقت الإستواء والغروب ليس فيه سنن رواتب وإن كان الفرض قضاء فلا سنة له ولو أطلق السنن ليشمل الكسوف لكان أولى."

(کتاب صلاۃ، فصل فی الاوقات المکروہۃ ص نمبر ۱۸۸،دار الکتب العلمیۃ)

البحر الرائق میں ہے:

«والنفل إذا شرع فيه في وقت مستحب، ثم أفسده داخل فيه أيضا فلا يصح في هذه الأوقات كما في المحيط بخلاف ما لو قضى في وقت مكروه ما قطعه من النفل المشروع فيه في وقت مكروه وحيث يخرجه عن العهدة وإن كان آثما؛ لأن وجوبه ضرورة صيانة المؤدي عن البطلان ليس غير والصون عن البطلان يحصل مع النقصان كما لو نذر أن يصلي في الوقت المكروه فأدى فيه يصح ويأثم ويجب أن يصلي في غيره."

(کتاب الصلاۃ،الاوقات المنہی عن الصلاۃ فیھا، ج نمبر ۱، ص نمبر ۲۶۲، دار الکتاب الاسلامی)

شرح منیۃ المصلی لابن امیر الحاج میں ہے:

"ثم ظاهر العبارة المذكورة في الكتاب انه يجوز قضاء الفرائض في هذه الاوقات مع الكراهة و ليس كذلك بل لا يجوز اصلا كما اطبق عليه اهل المذهب، منهم صاحب الحاوي و الشيخ رضي الدين في المحيط و كذا ظاهر العبارة المذكورة يفيد جواز النوافل كلها مع الكراهة في هذه الاوقات ايضا لكن صرح في المحيط بانه لا يجوز ايضا في هذه الاوقات قضاءالنوافل التي هي سنة كركعتي الفجر لان القضاء لزمه كاملا لان السنن شرعت لصفة الكمال و المؤدي في الناقص ناقص و الكامل لا يتأدي بالناقص."

(الوقت، ج نمبر ۱، ص نمبر ۶۴۹،دار الکتب العلیمۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101916

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں