5:52 پر فجر کی نماز قضا ہونی تھی اور میری نماز بھی عین اسی وقت پر مکمل ہوئی تو کیا میں نماز لو ٹاؤں گا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر فجر کی نماز سورج طلوع ہونے کے آغاز سے پہلے مکمل کی ہے، تو نماز ادا ہوگئی ہے، نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے، اگر فجر کی نماز ختم ہونے سے پہلے سورج طلوع ہونے لگےتو پھر نماز فاسد ہوگئی ،قضا لازم ہے، تاہم اگر کوئی عام شخص اس وقت نماز پڑھ لے تو نماز کراہت کے ساتھ ادا ہونے کی گنجائش ہے۔
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
سوال:
کوئی شخص فجر کی نماز پڑھنا چاہتا ہے، جب کہ طلوعِ آفتاب میں صرف ایک منٹ باقی ہے، کیا وہ نماز پڑھنا شروع کردے یا طلوعِ آفتاب کے بعد مکروہ وقت ختم ہونے تک توقف کرے؟ نیز بخاری شریف میں صفحہ نمبر 28 پر امام بخاری رحمہ اللہ نے مستقل اسی مسئلے پر باب باندھا ہے، اور اس کے تحت یہ حدیث لائے ہیں:
و عن أبي هریرۃ رضي اللہ عنه أن رسول اللہ ﷺ قال: من أدرك من الصبح رکعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح ... الخ
کا کیا جواب ہے؟
مستفتی: محمد عبد اللہ شاہ
جواب:
اگر یہ شخص عوام میں سے ہے تو اس کو طلوع کے وقت نماز پڑھنے سے اس وقت نہ روکا جائے؛ مبادا وہ نماز کو ترک کردے۔
دوم یہ کہ بعض ائمہ کے نزدیک اس وقت بھی نماز جائز ہے، اس لیے نماز کا پڑھنا ترک کرنے سے بہتر ہے۔ قال فی الدر المختار۔
البتہ اس کو عادت نہ بنایا جائے۔
ویسے حدیث میں طلوع کے وقت نماز پڑھنے کو مکروہ فرمایا گیا ہے، اور فقہاءِ حنفیہ نے مکروہِ تحریمی فرمایا ہے، آپ نے جو حدیث نقل کی ہے اس کے تعارض میں آنے والی احادیث آپ نے ذکر نہیں کی ہیں، جن میں تین اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے، اس لیے حنفیہ کے نزدیک نہی کی روایت کو راجح کہا گیا ہے۔ اور اس حدیث کے متعدد جوابات ہیں۔ فقط واللہ اعلم
کتبہ: ولی حسن
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله: بخلاف الفجر إلخ) أي فإنه لا يؤدي فجر يومه وقت الطلوع؛ لأن وقت الفجر كله كامل فوجبت كاملة، فتبطل بطرو الطلوع الذي هو وقت فساد.
(کتاب الصلوۃ، ج:1، ص:373، ط:ایچ ایم سعید)
وفیہ ایضاً
"(مع شروق) إلا العوام فلا يمنعون من فعلها؛ لأنهم يتركونها، والأداء الجائز عند البعض أولى من الترك كما في القنية وغيرها"
(کتاب الصلوۃ، ج:1، ص:371، ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144412101205
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن