بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث صبح صادق سے فجر کی نماز تک سو (100) مرتبہ


سوال

ایک  حدیث  کے متعلق بتائیں کہ ایک صحابی حضور علیہ الصلاة ولسلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور تنگ دستی  کی  شکایت  کی،   جس پر آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  . سبحان اللہ وبحمدہ  پڑھا کرو،  دنیا تمہارے پاس ذلیل ہوکر آئے گی ،  کیا یہ حدیث درست ہے ؟اگر ہاں تو حوالہ بتائیں!

جواب

خطیب بغدادی رحمہ اللہ (المتوفى: 463ھـ)  نےاپنی کتاب ’’رواۃ مالک‘‘(جس کا  اختصار  ابو الحسین رشید الدین القرشی المعرف بہ رشید عطار رحمہ اللہ (المتوفى: 662ھ) نے  ’’مجرد أسماء الرواة عن مالك‘‘ کے عنوان سے کیا ہے)  میں مذکورہ حدیث کو  عبد الله بن نافع الجمحي المدني قراب کےتذکرے میں اپنی سند سے یہ حدیث ذکر کی ہے،حدیث بمع سند ملاحظہ  فرمائیں : 

"[حدثنا] علي بن محمد بن أحمد بن يعقوب. عن محمد بن  عبد الله بن نعيم النيسابوري، أخبرنا محمد بن أحمد النضرابادي، حدثنا العباس بن حمزة، حدثنا أحمد بن خالد الشيباني، حدثنا عبد الله بن نافع الجمحي المدني، عن مالك بن أنس، عن نافع، عن ابن عمر، قال شهدت النبي صلى الله عليه وسلم وأتاه رجل، فقال: يا رسول الله، قلت ذات يدي، فقال: أين أنت عن صلاة الملائكة، وتسبيح الخلائق التي بها يرزقون؟ قال ابن عمر: فاغتنمت، فقلت: يا رسول الله ما هو؟ فقال: يا ابن عمر، من حين يطلع الصبح إلى حين يصلي الفجر، سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم، استغفر الله، مائة مرة تأتيك الدنيا صاغرة راغمة، ويخلق من كل [تسبيح] ملك يسبح إلى يوم القيامة".

"یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے دنیا کی کمی کی شکایت کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم فرشتوں اور مخلوقات کی اس تسبیح سے کہاں غافل ہو جس کی برکت سے انہیں رزق دیا جاتا ہے؟ حضرت ابنِ عمرؓ   فرماتے ہیں کہ میں نے موقع کو غنیمت سمجھ کر  نبی کریم ﷺ  سے  اس تسبیح کے متعلق پوچھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:  صبح صادق سے فجر کی نماز تک سو  (100) مرتبہ "سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ" پڑھنے  سے دنیا تمہارے پاس ذلیل ہوکر آئے گی،  اور ہر تسبیح کے بدلے اللہ ایک فرشتہ پیدا کریں گے جو قیامت تک تسبیح کرتا رہے گا۔"

(مجرد أسماء الرواة عن مالك،باب العين، (ص:82)، ط/ مكتبة الغرباء الأثرية، 1418هـ) 

حکم حدیث:

علامه عراقي رحمه الله   (المتوفى: 806ھـ)  مذکورہ روایت کی تخریج کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

"أخرجه المستغفري في الدعوات من حديث ابن عمر، وقال: غريب من حديث مالك، ولا أعرف له أصلا في حديث مالك، ولأحمد من حديث عبد الله بن عمرو أن نوحا قال لابنه: آمرك بلا إله إلا الله ... الحديث ثم قال: وسبحان الله وبحمده؛ فإنها صلاة كل شيء وبها يرزق الخلق"، إسناده صحيح". 

"یعنی  اس روایت کو علامہ مستغفری رحمہ اللہ  (المتوفى:  432ٗھ)نے اپنی کتاب’’الدعوات‘‘  میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا ہے، اور لکھا ہے :’’ امام مالک رحمہ اللہ کی احادیث میں سےیہ حدیث غریب ہے، یعنی اس میں تفرد  پایا جاتاہے، اور  احادیث مالک میں میں  اس کی کوئی اصل نہیں  پاتا‘‘، اور پھر علامہ عراقی رحمہ اللہ نے  مسند احمد سےحضرت عبد الله بن عمرو رضي الله عنه  کی روایت  اس روایت کے شاہد کے طورپر ذکر فرماکر مذکورہ روایت کے معني کے درست ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔  "

(تخريج أحاديث الإحياء/ المغني عن حمل الأسفار،كتاب الأذكار والدعوات، الباب الأول في فضيلة الذكر، (1 / 354)، ط/دار ابن حزم بيروت، 1426هـ)

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس حدیث کی سند پر بعض محدثین نے اگرچہ کلام کیا ہے، تاہم دیگر صحیح سند کی روایات میں یہ مضمون بھی ہے کہ اس تسبیح کی برکت سے مخلوقات کو اللہ رزق دیتے ہیں جس سے مذکورہ حدیث کے معنی و مضمون کی تائید ہوتی ہے،  لہذا مذکورہ عمل کرنا درست ہے، البتہ جب تک کوئی معتبر سند نہ مل جائے، اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے منسوب کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں