بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی نماز کی امامت اور قرآن کی تلاوت پر اجرت لینے کا حکم


سوال

میں ایک فیکٹری میں فجر کی نماز پڑھاتا ہوں اور اس کے علاوہ دو گھنٹہ وقت لیتے ہیں، جس میں روزانہ کی بنیاد پر مجھ سے سورہ بقرہ ، یس ، آیت کرسی وغیرہ کی تلاوت کرواتے ہیں، فیکٹری والے مجھے ماہانہ تنخواہ دیتے ہیں۔ کیا میرے لیے یہ تنخواہ لینا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل مذکورہ فیکٹری میں فجر کی نماز اور دو گھنٹے وہاں وقت دے کر قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے تو اس کے لیے تنخواہ لینا جائز ہے کیونکہ یہ تلاوت فیکٹری کے خیر و برکت کے لئے ہے، ایصال ثواب کے لئے نہیں ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن ابن عباس «أن نفرا من أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - مروا بماء فيهم لديغ أو سليم فعرض لهم رجل من أهل الماء فقال: هل فيكم من راق إن في الماء رجلا لديغا أو سليما، فانطلق رجل منهم فقرأ بفاتحة الكتاب على شاء فبرأ، فجاء بالشاء إلى أصحابه فكرهوا ذلك، وقالوا: أخذت على كتاب الله أجرا، حتى قدموا المدينة فقالوا: يا رسول الله أخذ على كتاب الله أجرا فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: إن ‌أحق ‌ما ‌أخذتم عليه أجرا كتاب الله» . رواه البخاري

"قال القاضي: " فيه دليل على جواز الاستئجار لقراءة القرآن والرقية به وجواز أخذ الأجرة على تعليم القرآن، وذهب قوم إلى تحريمه، وهو قول الزهري وأبي حنيفة وإسحاق - رحمهم الله - واحتجوا بالحديث الآتي عن عبادة بن الصامت في شرح السنة. في الحديث دليل على جواز الرقية بالقرآن وبذكر الله وأخذ الأجرة عليه لأن القراءة من الأفعال المباحة، وبه تمسك من رخص بيع المصاحف وشراءها وأخذ الأجرة على كتابتها وبه قال الحسن، والشعبي، وعكرمة، وإليه ذهب سفيان، ومالك والشافعي، وأصحاب أبي حنيفة - رحمهم الله ."

(کتاب البیوع ، باب الاجارۃ ج نمبر۵ ص نمبر ۱۹۹۲، دار الفکر)

عمدۃ القاری میں ہے:

"وقد اختلف العلماء في أخذ الأجر على الرقية بالفاتحة، وفي أخذه على التعليم، فأجازه عطاء وأبو قلابة، وهو قول مالك والشافعي وأحمد وأبي ثور، ونقله القرطبي عن أبي حنيفة في الرقية."

(کتاب الاجارۃ ، باب ما یعطی فی الرقیۃ علی احیاء العرب ج نمبر ۱۲ ص نمبر ۹۵، دارا لفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100395

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں