بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی جماعت کے دوران سنت پڑھنا،نماز قصراور صبح صادق سے اشراق تک نوافل نہ پڑھنا


سوال

1:کیا فجر کی جماعت کے دوران مسجد میں سنت پڑھنا درست ہوگا اس حال میں کہ قرأت ہو رہی ہو، سنت پڑھنا تو قریب الواجب ہے لیکن قرأت سننا فرض ہے ، تو کیا حکم ہوگا؟

2:قصر کی نماز کا آغاز شہر کی ( نا کہ گاؤں کی)کس حد کو عبور  کرنے کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے؟ میں نے ایک جگہ پڑھا کہ جس جگہ شہر کی میونسپل کمیٹی کے دفاتر قائم ہیں اس جگہ سے گزرے ہی قصر نماز کے حکم کا آغاز ہو جائے گا لیکن اگر کسی کا گھر میونسپل دفتر کے ساتھ ہی ہو تو اس پر بھی یہی صورت لاگو ہوگی؟

3:صبح صادق سے فجر کی جماعت کے دورانیے میں قضاء نماز پڑھنے کا جواز تو ہے لیکن نوافل کا نہیں ، براہ کرم اسکی علت درکار ہے۔

جواب

1۔اگر کوئی شخص فجر کی نماز کے لیے مسجد آئے اور جماعت شروع ہو گئی ہو تو اگر اسے امید ہوکہ وہ سنتیں پڑھ کر امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ میں شامل ہوجائے گا، تو اسے چاہیے کہ (کسی ستون کے پیچھے، یا برآمدے یا صحن میں یا جماعت کی صفوں سے ہٹ کر)  فجر کی سنتیں ادا کرے اور پھر امام کے ساتھ قعدہ میں شامل ہوجائے۔ اور اگر سنتیں پڑھنے کی صورت میں نماز مکمل طور پر نکلنے کا اندیشہ ہو تو سنتیں چھوڑ دے اور فرض نماز میں شامل ہوجائے، فجر کی سنتوں کی چوں کہ  خصوصی تاکید آئی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد  فرمایا ہے : "فجر کی سنت دو گانہ کو نہ چھوڑو ، اگرچہ  گھوڑے تمہیں روند ڈالیں"، اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ  "فجر کی دو رکعت دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے ان سب سے بہتر ہے"،اور آپ کا یہ اشکال کہ اگر امام فجر کی نماز پڑھا رہا ہو، توپیچھے سنتیں پڑھنا اس آیت " إذا قرئ القرآن فاستمعوا له"  کے منافی ہے، درست نہیں، کیوں کہ اس آیت کے نزول کے بارے میں متفرق صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مختلف اقوال منقول ہیں، جن کے مجموعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ تمام حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت قراءت خلاف الامام یعنی نماز کے دوران امام کے پیچھے قراءت کرنے سے متعلق نازل ہوئی  ہے؛  لہٰذا اس کا فجر کی سنتوں سے کوئی تعلق نہیں۔

أحكام القرآن للجصاص ميں هے:

"قال الله تعالى: {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون} قال أبو بكر: روي عن ابن عباس أنه قال: أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قرأ في الصلاة وقرأ معه أصحابه فخلطوا عليه، فنزل القرآن: {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا} وروى ثابت بن عجلان عن سعيد بن جبير عن ابن عباس في قوله تعالى: {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا} قال: "المؤمن في سعة من الاستماع إليه إلا في صلاة مفروضة أو يوم جمعة أو فطر أو أضحى". وروى المهاجر أبو مخلد عن أبي العالية قال: "كان نبي الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى قرأ أصحابه أجمعون خلفه، حتى نزلت: {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا} فسكت القوم وقرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم". وروي الشعبي وعطاء قالا: "في الصلاة". وروى إبراهيم بن أبي حرة عن مجاهد مثله. وروى ابن أبي نجيح عن مجاهد: "أن النبي صلى الله عليه وسلم سمع قراءة فتى من الأنصار وهو في الصلاة يقرأ فنزلت هذه الآية". وروي عن سعيد بن المسيب أنه قرأ في الصلاة. وروي عن مجاهد: أنه في الصلاة والخطبة. والخطبة لا معنى لها في هذا الموضع; لأن موضع القرآن في الخطبة كغيره في وجوب الاستماع والإنصات. وروي عن أبي هريرة أنهم كانوا يتكلمون في الصلاة حتى نزلت هذه الآية. وهذا أيضا تأويل بعيد لا يلائم معنى الآية; لأن الذي في الآية إنما هو أمر بالاستماع والإنصات لقراءة غيره، لاستحالة أن يكون مأمورا بالاستماع والإنصات لقراءة نفسه، إلا أن يكون معنى الحديث أنهم كانوا يتكلمون خلف النبي صلى الله عليه وسلم في الصلاة فنزلت الآية، فإن كان كذلك فهو في معنى تأويل الآخرين له على ترك القراءة خلف الإمام  فقد حصل من اتفاق الجميع أنه قد أريد ترك القراءة خلف الإمام والاستماع والإنصات لقراءته. ولو لم يثبت عن السلف اتفاقهم على نزولها في وجوب ترك القراءة خلف الإمام لكانت الآية كافية في ظهور معناها وعموم لفظها ووضوح دلالتها على وجوب الاستماع والإنصات لقراءة الإمام وذلك لأن قوله تعالى: {وإذا قرئ القرآن ‌فاستمعوا ‌له وأنصتوا} يقتضي وجوب الاستماع والإنصات عند قراءة القرآن في الصلاة وفي غيرها، فإن قامت دلالة على جواز ترك الاستماع والإنصات في غيرها لم يبطل حكم دلالته في إيجابه ذلك فيها. وكما دلت الآية على النهي عن القراءة خلف الإمام فيما يجهر به فهي دالة على النهي فيما يخفي; لأنه أوجب الاستماع والإنصات عند قراءة القرآن لم يشترط فيه حال الجهر من الإخفاء، فإذا جهر فعلينا الاستماع والإنصات وإذا أخفى فعلينا الإنصات بحكم اللفظ لعلمنا بأنه قارئ للقرآن."

(سورة الأعراف، باب القراءة خلف الإمام، ج:4، ص:215، ط:دار اإحياء التراث العربي)

الدر المختار میں ہے:

"(وإذا خاف فوت) ركعتي (الفجر لاشتغاله بسنتها تركها) لكون الجماعة أكمل (وإلا) بأن رجا إدراك ركعة في ظاهر المذهب. وقيل التشهد واعتمده المصنف والشرنبلالي تبعا للبحر، لكن ضعفه في النهر."

رد المحتار میں ہے:

"(قوله لكن ضعفه في النهر) حيث قال إنه تخريج على رأي ضعيف. اهـ.

قلت: لكن قواه في فتح القدير بما سيأتي، من أن من أدرك ركعة من الظهر مثلا فقد أدرك فضل الجماعة وأحرز ثوابها كما نص عليه محمد وفاقا لصاحبيه، وكذا لو أدرك التشهد يكون مدركا لفضيلتها على قولهم. قال: وهذا يعكر على ما قيل إنه لو رجا إدراك التشهد لا يأتي بسنة الفجر على قول محمد. والحق خلافه لنص محمد على ما يناقضه اهـ أي لأن المدار هنا على إدراك فضل الجماعة، وقد اتفقوا على إدراكه بإدراك التشهد، فيأتي بالسنة اتفاقا كما أوضحه في الشرنبلالية أيضا، وأقره في شرح المنية وشرح نظم الكنز وحاشية الدرر لنوح أفندي وشرحها للشيخ إسماعيل ونحوه في القهستاني وجزم به الشارح في مواقيت الصلاة."

(كتاب الصلاة، ج:2، ص:56، ط:سعيد)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"قوله: (إلا سنة الفجر إذا أمن فوت الجماعة)، إنما خصت سنة الفجر؛ لأن لها فضيلة عظيمة قال صلى الله عليه وسلم: (ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها)، وروي: "صلوهما وإن طردتكم الخيل" أو أن فيهما الرغائب ولكن لما كانت للجماعة فضيلة أيضا يعمل بها بقدر الإمكان عند التعارض، فإن خشي فوت الجماعة دخل مع الإمام، لأنه لما تعذر إحرازهما يحرز أفضلهما وهو الجماعة".

(كتاب الصلاة، فصل في الأوقات المكروهة (ص:190)، ط. دار الكتب العلمية )

2:اگر کوئی شخص  اپنے شہر کی حدود سے لے کر  48  میل (تقریبًا 78 کلو میٹر) کی مسافت تک سفر کے ارادے سے نکلا ہو تو ایسا شخص اپنے شہر کی آبادی اور حدود ختم ہونے کے بعد یعنی اپنے شہر سے نکلتے ہی قصر نماز ادا کرے گا، اسی طرح سفر سے واپسی پر اپنے شہر کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے تک قصر نماز پڑھے گا،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر میونسپل دفتر شہر کی آبادی میں ہو تو قصر نہیں پڑھے گا اور اگر شہر کی آبادی میں نہ ہو تو قصر پڑھے گا۔

شہر کی حدود کا اعتبار شہر کی آبادی سے ہوگا، شہر کی جس جانب سے مسافر شہر سے باہر نکلے گا، اس جانب شہر کی آبادی ختم ہوجانے کے بعد قصر کا آغاز ہوگا۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: من جاوز بيوت مصره مريدا سيرا وسطا ثلاثة أيام في بر أو بحر أو جبل قصر الفرض الرباعي) بيان للموضع الذي يبتدأ فيه القصر ولشرط القصر ومدته وحكمه أما الأول فهو مجاوزة بيوت المصر لما صح عنه - عليه السلام - «أنه قصر العصر بذي الحليفة» وعن علي أنه خرج من البصرة فصلى الظهر أربعا ثم قال: إنا لو جاوزنا هذا الخص لصلينا ركعتين والخص بالخاء المعجمة والصاد المهملة بيت من قصب كذا ضبطه في السراج الوهاج."

(البحرا لرائق شرح کنزالدقائق، کتاب الصلوٰة ،باب المسافر، 138/2، دارالكتاب الاسلامی)

3:فجر کا وقت داخل ھونے کے بعد سے سورج نکلنے تک فجر کی سنت کے علاوہ کوئی بھی نفل نماز پڑھنا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت میں کبھی دو سنت کے علاوہ کوئی نفل نماز نہیں پڑھی۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة قال:  نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن صلاتين بعد الفجر حتى تطلع الشمس وبعد العصر حتى تغرب الشمس."

(باب لايتحرى الصلاة قبل غروب الشمس، ج:1،ص: 213، رقم 563، ط: دار ابن كثير)

یعنی رسول  اللہ صلی اللہ علیہ  و آلہ وسلم نے دو نمازوں سے منع فرمایاہے: فجر کے بعد سے سورج طلوع ہونے تک، اور عصر کے بعد سے

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(وكذا) الحكم من كراهة نفل وواجب لغيره لا فرض وواجب لعينه (بعد طلوع فجر سوى سنته) لشغل الوقت به."

 (کتاب الصلاۃ،ج:1،ص:375، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101604

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں