بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر، ظہر، عشاء اور جمعے کی اذان اور نماز میں وقفے کا بیان


سوال

1۔  جمعہ کی پہلی اذان اور خطبہ کی اذان میں کتنے منٹ ہونے چاہیے؟

2۔ فجر کی اذان کے  کتنے منٹ بعد فجر کی جماعت ہونی چاہئے؟

3۔ ظہر کی اذان کے  کتنے منٹ بعد جماعت ہونی چاہئے؟

4۔ عشاء کی اذان کے کتنے منٹ بعد جماعت ہونی چاہئے؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا کیا عمل رہا؟

 تمام جزئیات کے مدلل جواب مطلوب ہیں۔  (نوٹ) انکا جواب آج کےدور کے اعتبار سے منٹوں میں مطلوب ہے، تاکہ صحیح طور پر وضاحت ہوسکے۔

جواب

واضح ہو کہ مغرب  کی نماز  کے علاوہ  باقی تمام نمازوں میں اذان اور  نماز ـ(اقامت) کے درمیان ایسی دو یا چار رکعات کی مقدار  فصل کرنا مستحب ہے جس کی ہر رکعت میں دس آیتیں پڑھی جا سکیں اور ہمیشہ  آنے والے نمازیوں کے لیے نماز کے مستحب وقت  کی رعایت کرے؛  تاکہ کھانا کھانے  والا کھا پی کر  فارغ ہو جائے اور قضائے حاجت کرنے والا اپنی ضروریات سہولت کے ساتھ پوری کر کے فارغ ہو  کر جماعت کے ساتھ شریک ہو جائے۔ عام طور پر مساجد میں  نماز ظہر، عصر اور عشاء میں پندرہ  سے بیس منٹ کا وقفہ ہوتا ہے، یہ مناسب وقفہ ہے۔

البتہ مغرب کی نماز میں تعجیل افضل ہے، مغرب کی  نماز اور اذان میں صرف ایک بڑی آیت یا تین مختصر آیات کی تلاوت کے بقدر  وقفہ کرکے نماز پڑھ لینی چاہیے،   اور جتنی دیر میں دورکعت ادا کی جاتی ہیں  (یعنی تقریباً 2 منٹ ) یا اس سے   زیادہ  تاخیر کرنا مکروہِ تنزیہی ہے۔

1۔ جمعہ کی پہلی اذان اور دوسری اذان   (جس کے فوراً بعد خطبہ اور نماز ہوتی ہے)میں کم از کم پندرہ سے بیس منٹ کا فاصلہ ہو اور اگر جمعے کے وعظ  کی افادیت کی وجہ سے اس سے زیادہ وقفہ ہوجائے تو اس کی بھی گنجائش ہے اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کی خطبے میں لوگوں کو وعظ فرمایا کرتے تھے لہذا جس علاقے کے لوگ عربی زبان میں خطبہ نہیں سمجھتے ہوں، ان کی علاقائی زبان میں وہاں وعظ کیا جاسکتا ہے۔

2۔ نماز فجر میں اسفار (روشن کرنا) کا حکم ہے  اس لیے فجر کا مستحب وقت یہ ہے کہ نماز فجر ایسے وقت میں  ادا کی جائے کہ خوب روشنی پھیل جائے اور  اتنا وقت باقی ہو کہ  اگر کسی وجہ سے نماز فاسد ہوجائے تو وضو کرکے فجر کی نماز دوبارہ وقت کے اندر سنت کے مطابق ادا کی جاسکے،  یعنی اس میں چالیس پچاس آیتوں کی تلاوت اچھی طرح کی جا سکے۔نیز باجماعت نماز پڑھنےکا ایک مقصد ’تکثیرِ جماعت‘ بھی ہے لہذا اس اندازے سے انتظامیہ مسجد  علاقے کی نوعیت کو سامنے رکھ کر اذان اور نماز میں  وقفہ رکھے  اور یہ دیکھے  کہ اگر فجر کا وقت داخل ہوتے ہی اذان دی جائے گی تو لوگ جلدی جاگ جائیں گے اور اہتمام کے ساتھ  جماعت کے وقت سے پہلے ہی آجائیں گے تو زیادہ  وقفہ رکھے مثلاً چالیس منٹ کا وقفہ رکھ لے، اور اگر ابتدائی وقت میں اذان دینے کے بعد لوگ جاگنے کے بجائے سوئے رہتے ہوں، جب کہ نماز سے کچھ دیر پہلے اذان دینے کی صورت میں زیادہ افراد نماز میں شریک ہوتے ہوں کم وقفہ مثلاً پندرہ سے بیس منٹ کا وقفہ رکھ لے۔

3۔مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں  ظہر کی اذان اور نماز میں پندرہ سے بیس منٹ کا فاصلہ ہو۔

4۔مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں عشاء  کی اذان اور نماز میں پندرہ سے بیس منٹ کا فاصلہ ہو۔

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لبلال: «إذا أذنت فترسل وإذا أقمت فاحدر واجعل بين أذانك وإقامتك قدر ما يفرغ الآكل من أكله والشارب من شربه والمعتصر إذا دخل لقضاء حاجته ولا تقوموا حتى تروني»."

(كتاب الصلاة، باب الاذان، الفصل الثاني، ج1 ص204، المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ :حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال سے فرمایا اے بلال جب تم اذان کہو تو ٹھہر ٹھہر کر اذان کہو اور جب اقامت کہو تو جلدی جلدی کہو اور اذان اور تکبیر میں اتنا ٹھہرو کہ کھانے والا کھانے سے اور پینے والا پینے سے قضائے حاجت کو جانے والا اپنی حاجت سے فارغ ہو جائے اور تم نہ کھڑے ہوا کرو جب تک مجھے دیکھ نہ لو۔

مشكاة المصابيح  میں ہے :

"عن جابر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خطب احمرت عيناه وعلا صوته واشتد غضبه حتى كأنه منذر جيش يقولك: «صبحكم ومساكم» ويقول: «بعثت أنا والساعة كهاتين» . ويقرن بين إصبعيه السبابة والوسطى."

(كتاب الصلاة، باب الخطبة والصلاة، الفصل الأول، ج1 ص442، المكتبة الإسلامي)

مشكاة المصابيح  میں ہے :

" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أسفروا بالفجر فإنه أعظم للأجر»."

(كتاب الصلاة، باب تعجيل الصلاة، الفصل الثاني، ج1 ص194، المكتبة الإسلامي)

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فجر کی نماز روشنی میں پڑھو کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے ۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے :

"وروي أنه - صلى الله عليه وسلم - «قرأ بالمعوذتين في صلاة الفجر يوما فلما فرغ قالوا: أوجزت، فقال - صلى الله عليه وسلم -: سمعت بكاء صبي فخشيت على أمه أن تفتتن» دل على أن الإمام ينبغي له أن يراعي حال قومه؛ ولأن مراعاة حال القوم سبب لتكثير الجماعة فكان ذلك مندوبا إليه."

(كتاب الصلاة، فصل في سنن حكم التكبير أيام التشريق، ج1 ص206، دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"يستحب تأخير الفجر ولا يؤخرها بحيث يقع الشك في طلوع لشمس بل يسفر بها بحيث لو ظهر فساد صلاته يمكنه أن يعيدها في الوقت بقراءة مستحبة. كذا في التبيين وهذا في الأزمنة كلها إلا صبيحة يوم النحر للعاج بالمزدلفة فإن هناك التغليس أفضل. هكذا في المحيط."

(کتاب الصلاۃ، الفصل الثاني في بيان فضيلة الأوقات، ج: 1، صفحہ: 51 و52، ط: دارالکفر)

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"مقدار ركعتين أو أربع يقرأ في كل ركعة نحوًا من عشر آيات، كذا في الزاهدي. و الوصل بين الأذان و الإقامة مكروه بالاتفاق ... ينبغي أن يؤذن في أول الوقت ويقيم في وسطه حتى يفرغ المتوضئ من وضوئه والمصلي من صلاته والمعتصر من قضاء حاجته. كذا في التتارخانية ناقلًا عن الحجة."

(کتاب الصلاۃ، الفصل الثاني في كلمات الأذان والإقامة وكيفيتهم، ج: 1 صفحه: 56 و57، ط: دار الفکر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100637

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں