بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر اورعصر کے اوقات میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں کا تبدیل ہونا اور اعمال کا پیش کرنا


سوال

فرشتوں کی تبدیلی کا فکس وقت بتائیں کونسا ہے؟ تاکہ اس وقت کوئی گناہ نہ کیا جاۓ،سنا ہے کہ جب فرشتوں کی ڈیوٹی تبدیل ہو تو بندہ نیکی یا گناہ جو بھی کرہا ہو وہ نیکی،گناہ ڈیوٹی پر آنے والے اور جانے والے دونوں فرشتے نوٹ کر لیتے ہیں، اس لیےمیں چاہتا ہوں مجھے اس وقت کا آپ بتائیں (عصر کا وقت ہے غروب آفتاب کا یا سورج طلوع کا ؟)تاکہ اس وقت کوئی گناہ نہ کیا جاۓ اور دونوں ڈیوٹی والے فرشتے گناہ کی بجاۓ نیکی لکھ لیں ۔

جواب

فرشتوں کےتبدیلی کےاوقات فجراورعصرکی نمازکاوقت ہے،فجرمیں آنےوالےفرشتےعصرکی نمازکےوقت چلے جاتےہیں اورعصرمیں آنےوالےفرشتےفجرمیں چلےجاتےہیں، جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سےثابت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"رات اور دن میں فرشتوں کی  ذمہ داریاں بدلتی رہتی ہیں اور فجر اور عصر کی نمازوں میں ان (ڈیوٹی پر آنے والوں اورجانے والوں) فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے، پھر تمہارے رات والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ   ان سے پوچھتا ہے   (حال آں کہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے)    کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا؟ وہ کہتےہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور  جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔"

لہذامذکورہ اوقات میں عبادت میں مشغول ہوناچاہیےتاکہ آنےجانےوالےفرشتےنیکیاں لکھ کراللہ کی بارگاہ میں پیش کرے۔

نیزمذکورہ اوقات کےعلاوہ بھی گناہوں سےاجتناب کرناچاہیے،اس لیےکہ اللہ کی ذات ہروقت انسان کو دیکھتی ہے،لہذاایساکوئی لمحہ نہ آئےجواللہ کی نافرمانی ،گناہ  میں گزرجائےاورآخرت میں عتاب وسزاکاباعث بنے۔

صحیح بخاری میں ہے :

"عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ‌يتعاقبون ‌فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار، ويجتمعون في صلاة الفجر وصلاة العصر، ثم يعرج الذين باتوا ‌فيكم، فيسألهم وهو أعلم بهم: كيف تركتم عبادي؟ فيقولون: تركناهم وهم يصلون، وأتيناهم وهم يصلون ."

(باب فضل صلاة العصر،ج : 1 ص : 115 ط : السلطانية)

المفاتیح فی شرح المصابیح لمظہرالدین الزیدانی میں ہے :

"وأراد بقوله: "ملائكة" هنا: الملائكة الذين ‌يكتبون ‌أعمال ‌العباد. "ويجتمعون في صلاة الفجر وصلاة العصر"؛ يعني: يكتب (1) الملائكة الذين يكونون مع الناس في الليل حتى يجيء الملائكة الذين يكونون معهم في النهار؛ أي: في النهار عند صلاة الصبح، فإذا جاء الذين يكونون معهم في النهار وقت صلاة الصبح يعرج الذين كانوا معهم في الليل، وإذا كان وقت العصر يجيء الذين يكونون معهم في الليل ويعرج الذين جاؤوا وقت الصبح.

والمراد بهذا الحديث تحريض الناس على المواظبة على هاتين الصلاتين.

قولهم: "تركناهم وهم يصلون"؛ أي: تركناهم في هذه الساعة وهم يصلون الصبح.

"وأتيناهم" أي: لما نزلنا بهم كانوا يصلون العصر."

(كتاب الصلاة،باب تعجيل الصلاة،فصل ج : 2 ص : 34 ط : دارالنوادر)

شرح النووی میں ہے :

"وأما اجتماعهم في الفجر والعصر فهو من لطف الله تعالى بعباده المؤمنين وتكرمة لهم أن جعل اجتماع الملائكة عندهم ومفارقتهم لهم في أوقات عباداتهم واجتماعهم على طاعة ربهم ، فيكون شهادتهم لهم بما شاهدوه من الخير. وأما قوله صلى الله عليه و سلم: فيسألهم ربهم -وهو أعلم بهم-كيف تركتم عبادي فهذا السؤال على ظاهره وهو تعبد منه لملائكته كما أمرهم بكتب الأعمال وهو أعلم بالجميع. قال القاضي عياض رحمه الله: الأظهر وقول الأكثرين أن هؤلاء الملائكة هم الحفظة الكتاب، قال: وقيل: يحتمل أن يكونوا من جملة الملائكة بجملة الناس غير الحفظة."

(باب فضل صلاتي الصبح والعصر والمحافظة عليهم،ج : 5 ص : 133 ط : دار إحياء التراث العربي، بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408100792

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں