بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی سنتیں کب تک پڑھی جا سکتی ہیں؟


سوال

  فجر کی نماز کی سنتیں کب تک پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

اگر کوئی شخص فجر کی نماز کے لیے مسجد آئے اور آخری رکعت ہو تو اگر اسے امید ہو کہ وہ سنتیں پڑھ کر امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ میں شامل ہوجائے گا، تو اسے چاہیے کہ (کسی ستون کے پیچھے، یا برآمدے یا صحن میں یا جماعت کی صفوں سے ہٹ کر)  فجر کی سنتیں ادا کرے اور پھر امام کے ساتھ قعدہ میں شامل ہوجائے، اور اگر سنتیں پڑھنے کی صورت میں نماز مکمل طور پر نکلنے کا اندیشہ ہو تو سنتیں چھوڑ دے اور فرض نماز میں شامل ہوجائے،  پھر اشراق کا وقت ہوجانے کے بعد  سنت قضا کر لے (سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے اس کو پڑھنا جائز نہیں ہے) اور یہ حکم اسی دن کے زوال تک کے لیے ہے،  اس دن کے زوال کے بعد فجر کی سنت کی قضا درست نہیں۔

رد المحتار میں ہے:

"(قوله ولا يقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لا يقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فيقضيها تبعا لقضائه لو قبل الزوال ،أما إذا فاتت وحدها فلاتقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال كما في الدرر."

(الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الصلاة، باب ادرا الفريضة، 57/2، سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403101223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں