فجرکی سنت کاحکم؟
نماز فجر سے پہلے دو رکعت نماز سنت مؤکدہ ہے،دیگر سنتوں کے مقابلے میں ان دو رکعت سنتوں کی خصوصی تاکید احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : "فجر کی سنت دو گانہ کو نہ چھوڑو ، اگرچہ گھوڑے تمہیں روند ڈالیں"۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ "فجر کی دو رکعت دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے ان سب سے بہتر ہے"۔
اس بنیاء پر ائمہ احناف کے ہاں اگر فجر کی سنتوں کی ادائیگی کے بعد امام کے ساتھ فرض نماز کا قعدہ اخیرہ مل سکتا ہے تو بھی سنت نہ چھوڑے۔ اگر اس کی بھی امید نہ ہو تو پھر سنت اس وقت نہ پڑھے ۔
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:
''(وكذا يكره تطوع عند إقامة صلاة مكتوبة) أي إقامة إمام مذهبه ؛ لحديث: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة» (إلا سنة فجر إن لم يخف فوت جماعتها) ولو بإدراك تشهدها، فإن خاف تركها أصلاً.
(قوله: إلا سنة فجر)؛ لما روى الطحاوي وغيره عن ابن مسعود: أنه دخل المسجد وأقيمت الصلاة فصلى ركعتي الفجر في المسجد إلى أسطوانة، وذلك بمحضر حذيفة وأبي موسى، ومثله عن عمر وأبي الدرداء وابن عباس وابن عمر، كما أسنده الحافظ الطحاوي في شرح الآثار، ومثله عن الحسن ومسروق والشعبي شرح المنية.
(قوله: ولو بإدراك تشهدها) مشى في هذا على ما اعتمده المصنف والشرنبلالي تبعاً للبحر، لكن ضعفه في النهر، واختار ظاهر المذهب من أنه لا يصلي السنة إلا إذا علم أنه يدرك ركعة، وسيأتي في باب إدراك الفريضة، ح. قلت: وسنذكر هناك تقوية ما اعتمده المصنف عن ابن الهمام وغيره''.
(کتاب الصلاۃ،ج1،ص377،ط؛سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507100037
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن