بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی نماز کا وقت


سوال

میں کون سے  وقت میں فجر کی نماز پڑھ سکتا ہوں؟

جواب

فجر کی نماز  کا وقت صبح صادق ہوتے ہی شروع ہوتا ہےاور اسی وقت سے نماز پڑھنا درست ہو جاتا ہے،اور آفتاب کا کنارہ طلوع ہونے سے پہلے تک باقی رہتا ہے، جب آفتاب کا ذرا سا کنارہ بھی نکل آ ئےتو فجر کا وقت ختم ہوجاتا ہےاور یہ وقت مکروہ ہوتا ہے اور اس کے بعد نماز قضا ہوجاتی ہے،اور جب سورج طلوع ہوجائے اور اس کی زردی زائل ہوجائے (یعنی سورج کم از کم ایک نیزہ کی مقدار بلند ہوجائے، جس کااندازہ دس منٹ سے لگایاجاسکتا ہے، (ماخوذ از احسن الفتاوی، ج:2، ص:142، ط:ایچ ایم سعید) اور اتنی روشنی اس میں آجائے کہ نظر ٹھہر نہ سکے،تو مکروہ وقت ختم ہوجاتا ہے،اور پھر نماز پڑھنا جائز ہو جاتا ہے، فجر کا مستحب وقت  مردوں کے لیےیہ ہےکہ جب خوب اجالاہوجائے  تو فجر کی نماز پڑھنی چاہیے، اور عورتوں کے لیے فجر کی نماز اندھیرے میں یعنی اولِ وقت میں پڑھنا بہتر ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل فجر کی نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھے، لیکن اگر کسی عذر کی بنا پر جماعت نکل جائے تو  سورج نکلنے سے پہلے پہلے فجر کی نماز پڑھ لے اور سورج نکلنے کے بعد آنکھ کھلے تو اس وقت قضا کی نیت سے پڑھ لے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وقت الفجر من الصبح الصادق وهو البياض المنتشر في الأفق إلى طلوع الشمس".

(كتاب الصلاة، الباب الأول فى المواقيت، ج:1، ص:51، ط:مکتبه رشیدیه)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"ثلاثة أوقات لا يصح فيها شيء من الفرائض والواجبات التي لزمت في الذمة قبل دخولها " أي الأوقات المكروهة أولها "عند طلوع الشمس إلى أن ترتفع" وتبيض قدر رمح أو رمحين".

(كتاب الصلاة، فصل في الأوقات المکروهة،ص:185،186،ط:قدیمی کتب خانه)

وفيه ايضاّ:

"والإسفار بالفجر مستحب سفرا وحضرا "للرجال".

(كتاب الصلاة، باب المواقيت، ص: 182، قدیمی کتب خانه)

الدر المختار میں ہے:

"(والمستحب) للرجل (الابتداء) في الفجر (بإسفار والختم به) هو المختار بحيث يرتل أربعين آية ثم يعيده بطهارة لو فسد. وقيل يؤخر حدا؛ لأن الفساد موهوم (إلا لحاج بمزدلفة) فالتغليس أفضل كمرأة مطلقا. وفي غير الفجر الأفضل لها انتظار فراغ الجماعة".

(کتاب الصلوۃ، ج:1، ص:366، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307101501

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں