بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی نماز کے بعد نماز کے بقیہ وقت کا اعلان کرنا


سوال

ہمارے محلے میں کچھ عرصہ سے یہ  عمل جاری ہے کہ نماز فجر کی بعد مؤذن مسجد کے مائیک میں اعلان کرتے   ہیں کہ "نماز فجر کی وقت میں ا  بھی پانچ یا دس منٹ باقی ہے،جن لوگوں نے  ا بھی تک نماز ادا نہیں کی،جلدی سے ادا کرلیجیۓ"۔ طلوع شمس تک یہ  اعلان کیا جاتا ہے، کیا یہ اعلان تثویب کے حکم میں ہوگا؟ جبکہ یہاں کے بعض علماء اسے ناجائز اور بدعت بھی کہتے  ہیں، لیکن بعض علماء اسے جائز اور مستحسن قرار دیتے ہیں ، براہ کرم اس مسئلہ کے بارے میں صحیح جواب دے کر ہمیں ممنون فرمائیں۔

جواب

واضح رہے  کہ ” تثویب“ اذان اور اقامت کے درمیان میں نماز کے لیے اعلان کرنے  کو کہتے ہیں ، لہذا صورت مسؤلہ میں فجر کی جماعت کےبعد  نماز  کے باقی   وقت کے بارے میں   اعلان کرنا  تثویب میں داخل نہیں  ہے  ۔

باقی  چونکہ  یہ اعلان آپ ﷺ اور  آپ ﷺ کے بعد صحابہ   رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صحابہ کے بعد  تابعین     رحمہم اللہ سے ثابت نہیں اور  اس کے  اہتمام کرنے میں  اس بات کا اندیشہ موجود ہے کہ لوگ اس کو لازم اور دین کا حصہ سمجھنے لگیں گے ، جس سے یہ  بدعت بن جائے  گا ،لہذ اس طرح التزام کے ساتھ یہ  اعلان کرنا درست نہیں،مزید یہ کہ جو لوگ فجر کی نماز کے بعد  تلاوت اور ذکر و اذکار میں مشغول ہوں گے ،ان کے لیے پریشانی ہوگی۔  

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويثوب) بين الأذان والإقامة في الكل للكل بما تعارفوه (ويجلس بينهما) بقدر ما يحضر الملازمون مراعيا لوقت الندب (إلا في المغرب)

(قوله: ويثوب) التثويب: العود إلى الإعلام بعد الإعلام درر، وقيد بتثويب المؤذن لما في القنية عن الملتقط: لا ينبغي لأحد أن يقول لمن فوقه في العلم والجاه حان وقت الصلاة سوى المؤذن؛ لأنه استفضال لنفسه. اهـ. بحر. قلت، وهذا خاص بالتثويب للأمير ونحوه على قول أبي يوسف فافهم.

(قوله: بين الأذان والإقامة) فسره في رواية الحسن بأن يمكث بعد الأذان قدر عشرين آية ثم يثوب ثم يمكث كذلك ثم يقيم بحر."

(1/ 389كتاب الصلاة ,باب اللأذان,ط:سعيد)

وفي بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:

"(وأما) التثويب فالكلام فيه في ثلاثة مواضع: أحدها - في تفسير التثويب في الشرع، والثاني - في المحل الذي شرع فيه، والثالث - في وقته (أما) الأول - فقد ذكره محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الصلاة، قلت: أرأيت كيف التثويب في صلاة الفجر؟ قال: كان التثويب الأول بعد الأذان " الصلاة خير من النوم " فأحدث الناس هذا التثويب وهو حسن، فسر التثويب، وبين وقته، ولم يفسر التثويب المحدث، ولم يبين وقته، وفسر ذلك في الجامع الصغير وبين وقته فقال: التثويب الذي يصنعه الناس بين الأذان والإقامة في صلاة الفجر " حي على الصلاة حي على الفلاح " مرتين - حسن، وإنما سماه محدثا لأنه أحدث في زمن التابعين، ووصفه بالحسن لأنهم استحسنوه.

وقد قال - صلى الله عليه وسلم -: «ما رآه المؤمنون حسنا فهو عند الله حسن، وما رآه المؤمنون قبيحا فهو عند الله قبيح»."

 (1/ 148,كتاب الصلاة,فصل بيان كيفية الأذان,ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100421

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں