بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی نماز کی قضاء کب پڑھنی چاہیے؟


سوال

میں سعودی عرب میں مقیم ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ صبح کی نماز کے لیے ہم الارم لگا کر سو جاتے ہیں اور نیت بھی کر لیتے ہیں، پورا اہتمام کرتے ہیں، اُس کے باوجود اگر نماز قضا   ہو جائے تو اُس نماز کو کب ادا کرنا چاہیے؟ اور اس کا گناہ ہے؟ جب کہ ہم رات 12 بجے کام سے آتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ قضاء نماز تین ممنوع اوقات کے علاوہ ہر وقت پڑھی جا سکتی ہے، تین ممنوع  اوقات یعنی طلوعِ شمس (سورج طلوع ہونے سے لے کر اشراق کا وقت ہونے تک)، استواءِ شمس(نصف النہار کا وقت، احتیاطاً پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد، تقریباً دس منٹ تک)  اور غروبِ شمس سے پہلے جب سورج زرد پڑجائے اس وقت سے لے کر سورج غروب ہوجانے تک نہیں پڑھ سکتے ہیں، اس کے علاوہ باقی کسی بھی وقت میں پڑھ سکتے ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی فجر کی نماز قضاء ہو جائے تو قضاء نماز پڑھنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، بلکہ سورج نکلنے کے بعد اشراق کا وقت ہوتے ہی اس کی قضا کرلینی چاہیے، اور فجر کی قضاء اسی دن کے  زوال سے پہلے کرنے کی صورت میں دو رکعت سنتیں بھی پڑھی جائیں گی، البتہ اگر زوال کے بعد قضا کی جا رہی ہو تو پھر سنت کی قضا نہیں کی جائے گی، اگر سائل صاحبِ ترتیب ہے یعنی اس پر چھ نمازوں سے کم نمازیں باقی ہیں، تو اس کے لیے ظہر سے پہلے فجر  کی قضا کر نا واجب ہے۔ 

اگر سائل رات کو سوتے وقت صبح فجر میں اٹھنے کی نیت اور عزم سے سوتاہے اور اس کا مکمل اہتمام بھی کرتا ہے، اور اس کے باوجود کبھی فجر میں آنکھ نہیں کھل پاتی تو امید کی جاسکتی ہے کہ اس صورت میں نماز قضاء ہوجانے پر اس کی پکڑ نہ ہو، البتہ مستقل طور پر نماز کو قضاء کرنا باعثِ گناہِ کبیرہ ہے۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي قتادة، قال: ذكروا للنبي صلى الله عليه وسلم نومهم عن الصلاة، فقال: «إنه ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، فإذا ‌نسي ‌أحدكم صلاة، أو نام عنها، فليصلها إذا ذكرها»."

(أبواب الصلاة، باب ما جاء في النوم عن الصلاة، ج: 1، ص: 334، ط: مصطفي البابي الحلبي مصر)

ترجمہ: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوتے میں نماز کا رہ جانا قصور میں شمار نہیں، بلکہ قصور تو جاگتے میں (شمار) ہوتا ہے (کہ وہ اس طرح سویا)، لہٰذا جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھنے سے رہ جائے، یا نماز کے وقت غافل سوجائے تو جس وقت بھی یاد آئے پڑھ لے۔‘‘ (مظاہر حق)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ثلاث ساعات ‌لا ‌تجوز ‌فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب... ولا يجوز فيها قضاء الفرائض والواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر."

(كتاب الصلاة، الباب الأول في مواقيت الصلاة، الفصل الثالث في بيان الأوقات التي ‌لا ‌تجوز ‌فيها الصلاة وتكره فيها، ج: 1، ص: 52، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضا:

"ليس للقضاء وقت معين بل جميع أوقات العمر وقت له إلا ثلاثة، وقت طلوع الشمس، ووقت الزوال، ووقت الغروب فإنه لا تجوز الصلاة في هذه الأوقات، كذا في البحر الرائق... الترتيب بين الفائتة والوقتية وبين الفوائت مستحق، كذا في الكافي حتى لا يجوز أداء الوقتية قبل قضاء الفائتة، كذا في محيط السرخسي. وكذا بين الفروض والوتر، هكذا في شرح الوقاية."

(كتاب الصلاة، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، ج: 1، ص: 121، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولا يقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح) لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل."

(كتاب الصلاة، باب إدراك الفريضة، ج: 2، ص: 58، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407102063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں