بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی نماز کی قضا


سوال

فجر کی نماز کی قضا کا حکم کیا ہے؟

جواب

اگر فجر کی نماز قضا ہو جائے تو سورج نکلنے کے بعد اشراق کا وقت ہوتے ہی  (یعنی سورج طلوع ہوکر کم از کم ایک نیزہ کی مقدار بلند ہونے کے بعد) اُس کی قضا کرلینا درست ہے، بلکہ جلد از جلد قضا کر لینی چاہیے، اور فجر کی قضا اسی دن کے  زوال سے پہلے کرنے کی صورت میں سنت بھی پڑھی جائے گی، البتہ اگر اس دن کے زوال کے بعد  کسی بھی وقت قضا  کی جا رہی ہو تو پھر سنت کی قضا نہیں کی جائے گی۔ 

 اگر ظہر  تک بھی فجر کی قضا نہیں کر پایاتو ظہر سے پہلے ضرورقضا کر لینی چاہیے، تاکہ غفلت نہ ہو۔  اور جو شخص صاحبِ ترتیب ہو یعنی اس  کے ذمے چھ نمازوں سے کم نمازیں  قضا باقی ہوں،تو ایسے شخص کے لیے ظہر سے پہلے فجر کی قضا کر نی واجب ہے۔

باقی جن اوقات میں قضا نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، وہ یہ ہیں:

1۔ سورج کے عین طلوع ہونے سے لے کر ایک نیزہ بلند ہونے تک۔

2۔نصف  النہاریعنی استوائے شمس کے وقت، جب سورج بالکل سر پر آجاتاہے، اس سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد میں احتیاطًا کوئی بھی نماز پڑھنا منع ہے ۔

3۔ سورج غروب ہونے سے پہلے جب وہ زرد پڑ جائے، اس سے لے کر سورج غروب  ہوجانے تک۔

اس کے علاوہ تمام اوقات میں قضا نماز پڑھی جا سکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( وكره ) تحريماً...( صلاة ) مطلقاً ( ولو ) قضاء أو واجبة أو نفلا أو ( على جنازة وسجدة تلاوة وسهو ) ( مع شروق ) ( واستواء )

 ( وغروب ، إلا عصر يومه ) فلا يكره فعله لأدائه كما وجب."

(ردالمحتار،1/370۔دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں