بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی نماز اور تلاوت کے بعد سونے کا حکم


سوال

صبح فجر کی نماز اور قرآن کی تلاوت کے بعد تھوڑی دیر سونا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

فجر کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے سونا مکروہ ہے، البتہ اگر کوئی شخص بیمار ہو یاکسی وجہ سے رات میں نیند نہ کرسکا ہو اور دن میں نیند کرنے کا موقع نہ ہو، یا کوئی اور عذر ہوجس کی وجہ سے  آرام کی ضرورت ہو تو ایسے شخص کے لیے سونا ممنوع نہیں ہے۔

مستحب یہ ہے کہ صبح صادق (یعنی فجر کا وقت داخل ہونے) سے لے کر سورج طلوع ہوکر اشراق کا وقت ہونے تک آدمی جاگتا رہے، اور اس پورے وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے، فجر کی نماز کی ادائیگی کے ساتھ ذکر و تلاوت، استغفار و دعا میں مشغول رہے، اور اشراق کا وقت ہوجانے کے بعد اشراق کی نماز ادا کرکے پھر ضرورت ہو تو سوجائے، اس لیے کہ از روئے روایات فجر کی نماز کا مکمل وقت ارزاق وغیرہ کی تقسیم کا وقت ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوکر برکت اور خیر کی دعا اور ذکر میں مشغول رہنا چاہیے۔ 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ويكره ‌النوم في أول النهار وفيما بين المغرب والعشاء."

(كتاب الكراهية، الباب الثلاثون في المتفرقات، ج:٥، ص:٣٧٢، ط:رشيدية)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"قال النووي: أشرف أوقات الذكر في النهار الذكر بعد صلاة الصبح، قال ابن علان: إنما فضل الذكر ذلك الوقت لكونه تشهده الملائكة ، قال تعالى: {وقرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهودا}  وفي الحديث المرفوع من صلى الغداة في جماعة، ثم قعد يذكر الله تعالى حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة تامة تامة تامة،  ومن هنا كره مالك الكلام بعد صلاة الفجر إلى طلوع الشمس لأجل الانشغال بالذكر ويكره النوم عندهم حينئذ."

(حرف الذال، آداب الذاكرين، ج:٢١، ص:٢٤٥، ط:دارالسلاسل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں