بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی اذان کے بعد لوگوں کو اٹھانا


سوال

فجر کی اذان کے بعد لوگوں کو نماز کے لیے اٹھا سکتے ہیں؟ براہِ کرم شریعت کی روشنی میں مدلل ومفصل جواب عنایت فرمائیں.

جواب

اگر اذان کے بعد کوئی شخص گھر گھر جاکر یا گلی محلے میں آواز دے کر لوگوں کو  نماز کے لیے اٹھاتا ہے اور اس عمل کو اذان کا حصہ نہیں سمجھتا تو اس میں قباحت نہیں۔ البتہ یہ یاد رہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں اذان کو ہی نما زکی اطلاع کے لیے کافی سمجھا جاتاتھا، اذان کے بعد نما زکے لیے باقاعدہ دوبارہ کوئی اطلاع نہیں دی جاتی تھی، اور آج کل مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے ہوتے ہوئے تقریباً ہر گھر میں اذان کی آواز پہنچ جاتی ہے، نیز کسی بھی شخص کی یا مؤذن کی  یہ ذمہ داری بھی نہیں کہ اذان کے بعد لوگوں کو نماز کے لیے بلاتا پھرے، اس لیے مذکورہ عمل کی عادت ڈالنا مناسب نہیں ہے، لیکن فجر کی اذان کے وقت اگر سلیقے سے لوگوں کو متنبہ کرنے کی کوئی ایسی صورت بنائی جائے کہ لوگوں کے لیے مضرت کا باعث نہ بنے تو اس کی گنجائش ہے۔ 

"مرقاةالمفاتيح" میں ہے:

"وعن بلال قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم (لا تثوبن في شيء من الصلوات) : التثويب لغة إعلام مرة بعد مرة أخرى (إلا في صلاة الفجر) : في الفائق: الأصل في التثويب أن الرجل إذا جاء مستصرخا لوح بثوبه، فيكون ذلك دعاء وإنذارا ثم كثر حتى سمي الدعاء تثويبا، وقيل: هو ترديد الدعاء تفعيل من ثاب إذا رجع، ومنه قيل لصوت المؤذن الصلاة خير من النوم التثويب وزاد في النهاية: المؤذن إذا قال: حي على الصلاة فقد دعاهم، فإذا قال بعده: الصلاة خير من النوم فقد رجع إلى كلام معناه المبادرة إليها نقله الطيبي، وقيل: أو يرجع الناس عن النوم إلى الصلاة باللفظ المذكور، قال ابن الهمام: وخصوا به الفجر فكرهوه في غيره، وعن ابن عمر أنه سمع مؤذنا يثوب في غير الفجر وهو في المسجد، فقال لصاحبه: قم حتى نخرج من عند هذا المبتدع. وعن علي - رضي الله عنه - إنكاره بقوله: أخرجوا هذا المبتدع من المسجد، وأما التثويب بين الأذان والإقامة، فلم يكن على عهده عليه السلام ."

(كتاب الصلاة، باب الأذان، ج:2،ص:551،ط:دار الفكر۔ بيروت)

فتاوی رحیمیہ میں مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

’’(الجواب)اصل حکم یہی ہے کہ تثویب(اذان کے بعد اعلان) مکروہ ہے کہ اذان کافی ہے، اذان کے بعد اعلان کی ضرورت نہیں رہتی،  بلکہ اس سے اذان کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔مگر افسوس کہ خدائی بلاوا  ’’حی علی الصلاۃ ، حی علی الفلاح‘‘ کی مسلمان پروا نہیں کرتے؛  اس لیے بعض علماء نے غافلوں کی تنبیہ کے لیے اجازت دی ہے ۔مجالس الا برار میں ہے ۔

’’ولظهور التواني في الأمور الدینیة استحسن المتأخرون التثویب بین الأذان والإقامة في الصلوات کلها سوی المغرب، وهذا العود إلی الإعلام بعد الإعلام بحسب ما تعارفه کل قوم لأنه مبالغة في الإعلام فلایحصل ذلك إلا بمایتعارفونه‘‘. (مجالس الأبرار، ص:287 مجلس: 48)

کبیری میں ہے:

’’واستحسن المتأ خرون التثویب وهو العود إلی الإعلام بعد الإعلام یحسب ما تعارفه کل قوم لظهور التواني في الأمور الدینیة‘‘. (ص: 361) (نور الإیضاح ص62 باب الأذان)(الشامية ج 1 ص 361، ص362 أیضاً)

بلاشبہ صبح کا وقت غفلت کا وقت ہے، غافلوں کو بیدار کرنے اور نماز باجماعت کا عادی بنانے کے لیے باہمت لوگ جگانے کے لیے نکلتے ہوں تو ان کو روکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب تک ضرورت ہو، یہ عمل جاری رکھاجاسکتا ہے۔ مگر کام سلیقہ سے ہونا چاہیے۔ تماشا نہ بنا لیا جائے اور باعثِ ایذاء مسلمین نہ ہو ، مستورات اور معذورین، مکانوں میں نماز اور ذکر اللہ میں مشغول ہوں تو ان کا لحاظ رکھا جائے۔ لوگوں کو چاہیے کہ غافلین میں اپنا شمار نہ کرائیں ، اورلوگوں کو اٹھانے کی زحمت سے بچائیں۔‘‘

( کتاب الصلوٰۃ، مکروہاتِ صلوٰۃ، عنوان نماز کے لیے جگانا، ج:۵،ص:۱۲۰،ط: دارالاشاعت) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں