بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کا وقت داخل ہونے کے بعد گھر میں جماعت کرانا


سوال

فجر  کی نماز گھر میں جماعت کرنے کے لیے اذان کی آواز کا انتظار ضروری ہے یا وقت داخل ہوتے ہی گھر پہ جماعت کی جا سکتی بغیر اذان کے؟

جواب

نماز کا وقت داخل ہوتے ہی نماز پڑھنا جائز ہوجاتا ہے، اذان تو نماز کا وقت داخل ہونے کے اعلان کے لیے اور باجماعت نماز کی طرف دعوت دینے کے لیے ہوتی ہے، اس لیے خواتین اپنے گھروں پر نماز کا وقت داخل ہوتے ہی نماز پڑھ سکتی ہیں چاہے اذان نہ ہوئی ہو، لیکن مردوں کے لیے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنتِ مؤکدہ اور واجب کے درجہ میں ہے، اس لیے مرد اگر بلا کسی عذر کے نماز کا وقت ہوتے ہی اذان سے پہلے گھر میں اپنی انفرادی نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ادا تو ہوجائے گی، لیکن جماعت چھوڑنے کا گناہ ملے گا، البتہ اگر کوئی شرعی عذر (بیماری، سفر ، خوف دشمن یا شدید بارش  وغیرہ) ہو پھر گناہ نہیں ملے گا۔

اگر کسی عذر (مثلاً موجودہ حالات میں کرونا وائرس)کی وجہ سے گھر میں باجماعت نماز ادا کی جارہی ہے تو  بھی اذان اور اقامت دونوں یا  کم از کم اقامت کے ساتھ ہی جماعت کی جائے، اور اگر محلے کی مسجد میں اذان  ونماز ہوچکی ہو تو گھر میں اذان و اقامت ضروری نہیں ہے، تاہم بہتر ہے کہ گھر میں بھی اذان و اقامت یا صرف اقامت کہہ کر جماعت کی جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 383):

"الأصل في مشروعية الأذان الإعلام بدخول الوقت".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 552):
"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال) قال الزاهدي: أرادوا بالتأكيد الوجوب إلا في جمعة وعيد فشرط".

 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 395):

"(وكره تركهما) معًا (لمسافر) ولو منفردًا (وكذا تركها) لا تركه لحضور الرفقة (بخلاف مصل) ولو بجماعة (وفي بيته بمصر) أو قرية لها مسجد؛ فلايكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه".

"(قوله: في بيته) أي فيما يتعلق بالبلد من الدار والكرم وغيرهما، قهستاني. وفي التفاريق: وإن كان في كرم أو ضيعة يكتفي بأذان القرية أو البلدة إن كان قريبًا وإلا فلا. وحد القرب أن يبلغ الأذان إليه منها اهـ إسماعيل. والظاهر أنه لايشترط سماعه بالفعل، تأمل.
(قوله: لها مسجد) أي فيه أذان وإقامة، وإلا فحكمه كالمسافر صدر الشريعة.
(قوله: إذ أذان الحي يكفيه) لأن أذان المحلة وإقامتها كأذانه وإقامته؛ لأن المؤذن نائب أهل المصر كلهم كما يشير إليه ابن مسعود حين صلى بعلقمة والأسود بغير أذان ولا إقامة، حيث قال: أذان الحي يكفينا، وممن رواه سبط ابن الجوزي، فتح: أي فيكون قد صلى بهما حكمًا، بخلاف المسافر فإنه صلى بدونهما حقيقةً وحكمًا؛ لأن المكان الذي هو فيه لم يؤذن فيه أصلاً لتلك الصلاة، كافي. وظاهره أنه يكفيه أذان الحي وإقامته وإن كانت صلاته فيه آخر الوقت تأمل، وقد علمت تصريح الكنز بندبه للمسافر وللمصلي في بيته في المصر، فالمقصود من كفاية أذان الحي نفي الكراهة المؤثمة. قال في البحر: ومفهومه أنه لو لم يؤذنوا في الحي يكره تركهما للمصلي في بيته، وبه صرح في المجتبى، وأنه لو أذن بعض المسافرين سقط عن الباقين، كما لايخفى". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201256

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں