بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر اور جمعہ کی نماز کے بعد تین مرتبہ دعا اور ایصال ثواب کے لیے تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھنا


سوال

همارے علاقے میں  مخصوص  نمازوں یعنی  فجر اور جمعہ  كے بعد امام صاحب تین تین  دعائیں کرواتے ہیں ، یعنی پہلے دو دعائیں  کرواتے ہیں،  اور بعد میں امام صاحب کہتے ہیں کہ  اب تین تین بار سورۂ اخلاص پڑھو، پھر اس کے بعد تیسری دعا کرواتے ہیں، اور اگر امام صاحب یہ تین دعائیں نہ کروائیں تو لوگ اس کو ملامت  کرتے  ہیں، یہ شریعت کي رو سے یہ جائز ہے یا ناجائز ؟

وضاحت:  یعنی فرض کے بعد ایک مرتبہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں، اور سب لوگ بھی ساتھ دعا کرتے ہیں، اس کے بعد دعا ختم کرکے دوبارہ یہی عمل دہراتے ہیں، اس کے بعد  تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھنے کا کہتے ہیں، فوت شدہ لوگوں کے ایصال ِ ثواب کے لیے، اور اس کے بعد تیسری مرتبہ دعا کراتے ہیں۔

جواب

 فرض نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہے اور  فرض نمازوں کے بعد کے اوقات حدیث شریف کے مطابق قبولیتِ دعاکے اوقات ہیں،اور دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور آں حضرت ﷺ سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔لہذا فرض نمازوں کے بعدہاتھ اٹھاکراجتماعی  طور پر دعا کرنا جائز ہے،   لیکن اس دعا کو یا دعا میں  کسی خاص ہیئت کو   ضروری اورلازم سمجھ کر کرنا،اورنہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا  درست نہیں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں    فجر اور جمعہ یا کسی بھی فرض نماز کے بعد  امام صاحب کا مطلقاً دعا کرنا تو جائز ہے، لیکن  فجر اور جمعہ کے بعد تین تین مرتبہ دعا  اور تیسری مرتبہ دعا سے پہلے تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھوانے کا  التزام کرنا اور نہ کرنے والوں پر امام یا مقتدیوں کا  ملامت کرنا   جائز نہیں ہے ؛ اس لیے کہ ان مخصوص  نمازوں میں مذکورہ طریقہ کے مطابق  دعاءمانگنا آپ ﷺ ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین اور تبع تابعین رحمھم  اللہ سے ثابت نہیں ہے، نیز ایصال ثواب کسی بھی  دن یا وقت کرنا جائز ہے،  ایصال ثواب کے لیے کسی خاص دن یا وقت یا مخصوص صورت  کو متعین کرنا  درست نہیں ہے ، لہذا مذکورہ طریقہ کے مطابق دعا اور ایصال ثواب کا التزام  کرنا اور نہ کرنے والوں پر ملامت کرنا  جائز نہیں ہے، اس سے یہ   عمل بدعت   شمار ہوگا۔

معجم کبیر للطبرانی میں ہے:

"حدثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيت عبد الله بن الزبير ورأى رجلاً رافعاً يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته»".

(المعجم الكبير للطبرانی 13/ 129، برقم: 324، ط: مكتبة ابن تيمية - القاهرة)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"ومنها: (ای من البدع)  التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته".

(الاعتصام للشاطبي (ص: 53) الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا، ط: دار ابن عفان، السعودية)

مرقاة المفاتیح  میں ہے:

"قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال ، فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟."

(3/31،  کتاب الصلاة،  الفصل الأول، ط: رشیدیة) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144305100529

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں