1.کیا اولیاء اللہ کے مرنے کے بعد ان کا فیض جاری رہتا ہے یا ختم ہو جاتا ہے؟
2.انبیاء صدیقین ، شہداءاور اولیاء کے مرنے کے بعد ان کے وسیلہ سے دعا مانگنا جائز ہے یا نہیں ؟
اولیاء اللہ کے انتقال کے بعد ان کاظاہری فیض ان کے مواعظ ، کتابوں اور شاگردوں کی صورت میں اور ان کاباطنی فیض ان پرہونے والی عنایاتِ الہی کے مظہر کی صورت میں جاری رہتا ہے، البتہ اس کا حصول صرف ان طریقوں سے ہو سکتا ہے جو اس کے اہل اور خواص کو معلوم ہیں نہ کہ ان طرق سے جوعوام میں رائج ہیں، جیسا کہ آج کل قبروں پر جا کر ان سے مرادیں مانگنے کا مشرکانہ طریقہ رائج ہے۔اس کے متعلق فتاوی مفتی محمودیہ میں ہے کہ "اصحاب نسبت بزرگوں کو مشایخ و اولیاء کرام کی ارواح طیبہ سے فیض پہننچتاہےاوروہ اس کا ادراک کرتے ہیں"۔
المہند علی المفند میں ہے:
"واما الاستفادة من روحانية المشائخ الاجلة ووصول الفيوض الباطنية من صدورهم او قبورهم فيصح على الطريقة المعروفة في اهلهاو خواصها لا بما هو شائع في العوام"
ترجمه:اب رہا مشائخ کی روحانیت سے استفادہ اور ان کے سینوں اور بڑوں سے باطنی فیوض پہنچناسو بےشک صحیح ہےمگر اس طریق سے جو اس کے اہل اور خواص کو معلوم ہے نہ کہ اس طرز سے جو عوام میں رائج ہے۔
(السوال الحادی عشر،ص:45، ط ادارہ اسلامیات لاہور)
فتاوی رشیدیہ میں ہے:
"(سوال)مزارات اولیاء رحمہم اللہ سے فیض حاصل ہوتا ہے یا نہیں اگر ہوتا ہے تو کس صورت سے؟
(الجواب)مزارات اولیاء سے کاملین کو فیض حاصل ہوتا ہے مگر عوام کو اس کی اجازت دینی ہرگز جائز نہیں ہے اور تحصیل فیض کا طریقہ کوئی خاص نہیں ہے جب جانے والا اہل ہوتا ہے تو اس کی طرف سے حسب استعداد فیضان ہوتا ہے مگر عوام میں ان امور کا بیان کرنا کفر وشرک کا دروازہ کھولنا ہے۔فقط۔"
(کتاب العقائد،ص245،ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام)
خطباتِ حکیم الامت میں ہے:
فیض کی دو قسمیں ہیں:
وجہ یہ ہے کہ فیض کی دو قسمیں ہیں ایک بہ دلالت لفظیہ یعنی تعلیم و تلقین، ایک غیر لفظیہ یعنی تقویت، نسبتاًافادہ اور استفادہ میں لفظیہ بہت مفید اور ممد ہےپس صرف قبور سے استفادہ پر بس کرناغلطی ہے۔
(ج:27، ص:153، ط ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ ملتان)
2۔انبیاء صدیقین ، شہداءاور اولیاء کی وفات کے بعد ان کے وسیلہ سے دعا مانگنا یعنی کسی نبی علیہ السلام، کسی شہید یا ولی سے اپنے تعلق کا واسطہ دے کر اللہ کے حضور دعا کرنا جائز ہے، مثلا یوں کہے کہ "اے اللہ جتنی رحمت تیرے اس بندہ پر متوجہ ہوتی ہے اور جتنا قرب ان کوآ پ کا حاصل ہے، اس کی برکت اور وسیلہ سے مجھ کو فلاں چیز عطا فرما ۔
تفسيرروح المعانی ميں ہے:
"وَكانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا نزلت في بني قريظة والنضير كانوا يستفتحون على الأوس والخزرج برسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم قبل مبعثه- قاله ابن عباس رضي الله تعالى عنهما وقتادة- والمعنى يطلبون من الله تعالى أن ينصرهم به على المشركين، كما روى السدي أنهم كانوا إذا اشتد الحرب بينهم وبين المشركين أخرجوا التوراة ووضعوا أيديهم على موضع ذكر النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وقالوا: اللهم إنا نسألك بحق نبيك الذي وعدتنا أن تبعثه في آخر الزمان أن تنصرنا اليوم على عدونا فينصرون."
(سورة البقرة، ج:1، ص:319، ط دار الكتب العلمية)
صحيح بخاری میں ہے:
"عن أنس:أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه: كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب. فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا، قال فيسقون."
(کتاب الاستسقاء، باب: سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا.، ج:1، ص:342، ط دار ابن کثیر)
رد المحتار شرح الدرالمختار ميں ہے:
"ومما روي من تأدبه معه أنه قال: إني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إلى قبره، فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وسألت الله تعالى عند قبره فتقضى سريعا."
(مقدمة الشامي، ج:1، ص:55، ط سعيد)
المہند علی المفند میں ہے:
"عندنا وعند مشايخنا يجوز التوسل في الدعوات بالأنبياء والصالحين من الأولياء والشهداء والصديقين في حياتهم وبعد وفاتهم بأن يقول في دعائه: اللهم إنى أتوسل إليك بفلان أن تجيب دعوتی و تقضى حاجتي إلى غير ذلك كما صرح به شیخنا و مولانا الشاه محمد إسحاق الدهلوى ثم المهاجر المكي ثم بينه في فتاواه شيخنا ومولانا رشید احمد الگنگوهی رحمة الله عليهما ... مذكورة على صفحة ٩٣ من المجلد الأول، فليراجع إليها من شاء."
(السوال الثالث والرابع، ص:37، ط ادارہ اسلامیات لاہور)
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر بزرگوں کے وسیلے سے دعا کرنا
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102238
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن