بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فیشن والے عبائے کا حکم


سوال

‎ آج کل جوانتہائی  کلرفل اور(embroided)کڑھائی والے عباۓ فیشن میں آگئے ہیں۔ کیا ان کا شا دیوں یا مخلو ط (gatherings)جس میں کسی مجبوری کے تحت جانا پڑجاۓ  پہن کےجانا مناسب ہے؟ خواتین کا کہنا ہوتا ہے کہ یہ زرق برق ملبوسات سے بہتر ہے، جبکہ وہ عباۓ بھی پر کشش ہوتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے، جو کہ عورت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے، اسی پردے میں عورت کی عزت ہے، یہی عورت کی حیا کی حفاظت کا ذریعہ ہے،  اس لیے اس بات کا تقاضا یہ ہے کہ جب عورت کسی ضرورت کے لیے گھر سے نکلے تو اس کو چاہیے کہ ایک تو مکمل پردے کے ساتھ باہر نکلے، دوسرا یہ کہ باہر نکلتے وقت ایسا برقعہ نہ پہنے جس سے اس کا پردہ نہ ہوتا ہو، حیا کی حفاظت نہ ہوتی ہو، اور جو مردوں کو اپنی جانب متوجہ کرے، کیوں کہ جس طرح بے پردہ ہوکر نکلنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے، اسی طرح فیشن والے  اور چست برقعہ پہن کر باہر نکلنا بھی اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں فیشن والے  یاکڑھائی والے چست برقعے جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کریں  جن  سے پردے کا مقصد ہی حاصل نہیں ہوتا ایسے برقعے پہننا جائز نہیں ہے، ظاہر ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے، جو کہ ایک مسلمان عورت کی شان نہیں ہوسکتی، لہٰذا ایک باحیا  عورت کا   برقعہ انتہائی سادہ ہو، اس میں ایسے نقش ونگار اور زیب وزینت  یا ایسا رنگ نہ ہو جو جاذبِ نظر ہونے کی وجہ سے مردوں کی توجہ کا سبب بنے۔

 برقعہ چست وباریک  نہ ہو کہ اس سے جسم کی ہیئت اور نشیب وفراز ظاہر ہو، بلکہ ڈھیلا ڈھالا  ہو، جس سے جسم کے اعضاءنمایاں نہ ہوتے ہوں۔
 برقعہ اس قدر بڑا ہو جس میں جسم اچھی طرح چھپ جائے۔
برقعہ مردوں کے لباس کے مشابہ نہ ہو، اسی طرح کافروں یا دین بیزار عورتوں کے فیشنی برقعہ کے مشابہ بھی نہ ہو، کیوں کہ ان لوگوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
برقعہ پرمہکنے والی خوشبو بھی نہ لگائی جائے، جو کہ مردوں کے لیے فتنے کا سبب بنے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صنفان من أهل النار لم أرهما، قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء ‌كاسيات ‌عاريات مميلات مائلات، رءوسهن كأسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة، ولا يجدن ريحها، وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا»"

(کتاب اللباس والزینة،باب النساء الكاسيات،ج:3،ص:1680،الرقم:2128،ط:دارإحياء التراث)

ترجمہ:ابوہریرہ  ؓ  سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دوزخ والوں کی دو قسمیں ایسی ہیں کہ جنہیں میں نے نہیں دیکھا ایک قسم تو ان لوگوں کی ہے کہ جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہیں جس سے وہ لوگوں کو مارتے ہیں اور دوسری قسم ان عورتوں کی ہے جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہیں وہ سیدھے راستے سے بہکانے والی اور خود بھی بھٹکی ہوئی ہیں ان عورتوں کے سر بختی اونٹوں کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہیں وہ عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو پا سکیں گی جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت(یعنی دور) سے محسوس کی جا سکتی ہے۔"

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

:روي عن عبد الله قال الجلباب الرداء ...وقال ابن عباس ومجاهد تغطي الحرة إذا خرجت جبينها ورأسها خلاف حال الإماء وحدثنا عبد الله بن محمد قال حدثنا الحسن قال أخبرنا عبد الرزاق قال أخبرنا معمر عن أبي خيثم عن صفية بنت شيبة عن أم سلمة قالت لما نزلت هذه الآية يدنين عليهن من جلابيبهن خرج نساء من الأنصار كان على رؤسهن الغربان من أكسية سود يلبسنهاقال أبو بكر في هذه الآية دلالة على أن المرأة الشابة مأمورة بستر وجها عن الأجنبيين وإظهار الستر والعفاف عند الخروج لئلا يطمع أهل الريب فيهن."

(تفسير سورة الأحزاب،آيت:59،ج:5،ص:245،ط:دارإحياء التراث)

فتاوی شامی میں ہے:

"وإن كان على المرأة ثياب فلا بأس بأن يتأمل جسدها وهذا إذا لم تكن ثيابها ملتزقة بها بحيث تصف ما تحتها، ولم يكن رقيقا بحيث يصف ما تحته، فإن كانت بخلاف ذلك فينبغي له أن يغض بصره اهـ.

وفي التبيين قالوا: ولا بأس بالتأمل في جسدها وعليها ثياب ما لم يكن ثوب يبين حجمها، فلا ينظر إليه حينئذ ..أقول: مفاده أن رؤية الثوب بحيث يصف حجم العضو ممنوعة ولو كثيفا لا ترى البشرة منه."

(كتاب الحظر وإباحت،فصل في النظر والمس،ج:6،ص:365،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں