بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فیصل بینک کے کریڈٹ کارڈ کے استعمال کا حکم


سوال

فیصل اسلامک بینک کا کریڈٹ کارڈ استعمال کرنا کیسا ہے؟

جواب

 کریڈٹ کارڈ چاہے وہ کسی بینک کا ہو،کسی بھی نام و عنوان سے ہو،صارف کریڈٹ کارڈ لیتے وقت بینک سے یہ معاہدہ کرتا ہے کہ وہ اگر  لی جانے والی رقم مقررہ مدت میں واپس نہ کر سکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام پر سود ادا کرے گا،یہ معاہدہ شرعاً جا ئز نہیں،لہذا صورتِ مسئولہ میں کریڈٹ کارڈ خواہ فیصل اسلامک  بینک کا ہو یا کسی بھی بینک کا ہو،اس کا بنوانا اور  استعمال کرنا سودی معاہدے اور سودی لین دین کی وجہ سے شرعاً جائز نہیں ہے، لہذا اس سے اجتناب کیا جائے۔

الجامع لاحکام القرآن للقرطبی میں ہے:

"قوله تعالى: (وقتلهم الأنبياء بغير حق) أي ونكتب قتلهم الأنبياء، أي رضاهم بالقتل. والمراد قتل أسلافهم الأنبياء، لكن لما رضوا بذلك صحت الإضافة إليهم. وحسن رجل عند الشعبي، قتل عثمان رضي الله عنه فقال له الشعبي: شركت في دمه. فجعل الرضا بالقتل قتلا، رضي الله عنه قلت: وهذه مسألة عظمى، حيث يكون الرضا بالمعصية معصية. وقد روى أبو داود عن، العرس بن عميرة الكندي عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (إذا عملت الخطيئة في الأرض كان من شهدها فكرهها- وقال مرة فأنكرها- كمن غاب عنها ومن غاب عنها فرضيها كان كمن شهدها). وهذا نص."

(تفسيرسورة آل عمران، ج:٤، ص:٢٩٥، ط:دار الكتب المصرية)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌جابر قال:  لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آكل ‌الربا ومؤكله، وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء."

(كتاب البيوع، ‌‌باب لعن آكل الربا ومؤكله، ج:٣، ص:١٢١٩، ط:دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت کی ہے سود کھانے والے پر، اس کے کھلانے والے پر، اس کے لکھنے والے پر اور اس کو گواہوں پر، اور فرمایا: یہ سب برابر ہیں۔  

عمدة القاری میں ہے:

"الرضی بالحرام حرام."

(باب آكل الرباوشاهده وكاتبه، ج:١٧، ص:٣٢٠، ط:دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."

(كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض، ج:٧، ص:٣٩٥، ط:دارالكتب العلمية)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"‌‌القاعدة الرابعة عشرة: ما حرم أخذه حرم إعطاؤه ..ويقرب من هذا قاعدة: ما حرم فعله حرم طلبه."

(القاعدة الرابعة عشر، ص:١٣٢، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101686

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں