بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فیکٹری میں موجود استعمال کی مشینوں اور ان کے پرزہ جات پر زکاۃ


سوال

 ایک دوست کی فیکٹری ہے جس میں مشینیں چالو حالت میں ہیں اور پاس میں مشینوں کے پرزہ جات ( سپیر پارٹس ) بھی موجود ہیں، جو بوقت ضرورت مشین میں لگائے جاتے ہیں ، ان پرزہ جات میں بعض پرزہ جات کی ضرورت چند روز، ہفتہ، مہینے بعد پڑ جاتی ہے اور بعض پرزہ جات جن کا دوبارہ بازار میں ملنا بھی مشکل ہے اوربعض کی ضرورت سال کے بعد آجاتی ہے ، تو ان پرزہ جات پر زکات  کی ادائیگی کے بارے میں شرعی رہنمائی فرما دیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں اگر مذکورہ مشینیں اور ان کے پرزہ جات تجارت کے لیے نہیں رکھے گئے ہیں ،یعنی ان مشینوں اور پرزوں کی تجارت نہیں کی جاتی ہے ،بلکہ ان کو فیکٹری میں سامان  کی  تیاری کے لیے استعمال کی غرض سے رکھا گیا ہے تو ان مشینوں اور ان کے پرزہ جات پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی ۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما فيما سوى الأثمان من العروض فإنما يكون الإعداد فيها للتجارة بالنية ؛ لأنها كما تصلح للتجارة تصلح للانتفاع بأعيانها بل المقصود الأصلي منها ذلك فلا بد من التعيين للتجارة وذلك بالنية." (3/408)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لاتجب فيها الزكاة كما لاتجب في بيوت الغلة، ولو دخل من أرضه حنطة تبلغ قيمتها قيمة نصاب ونوى أن يمسكها أو يبيعها فأمسكها حولاً لاتجب فيه الزكاة، كذا في فتاوى قاضي خان. ولو أن نخاسًا يشتري دواب أو يبيعها فاشترى جلاجل أو مقاود أو براقع فإن كان بيع هذه الأشياء مع الدواب ففيها الزكاة، وإن كانت هذه لحفظ الدواب بها فلا زكاة فيها كذا في الذخيرة. وكذلك العطار لو اشترى القوارير، ولو اشترى جوالق ليؤاجرها من الناس فلا زكاة فيها؛ لأنه اشتراها للغلة لا للمبايعة، كذا في محيط السرخسي. والخباز إذا اشترى حطبًا أو ملحًا لأجل الخبز فلا زكاة فيه". (5/69)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں