بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فیکٹری میں چوری کی بجلی استعمال کرنے کا حکم اور اگر ایسی فیکٹری ٹھیکہ پر دی گئی تو کیا حاصل ہونے والی رقم حلال ہوگی؟


سوال

1۔میرے ایک دوست نے سوال پوچھا ہے کہ ہماری ایک برف کی فیکٹری ہے جس میں بجلی چوری کی  جاتی ہےیعنی بل ہم ادا نہیں کرتے ، اور اس میں بڑی بڑی مشینیں ہوتی ہیں، اگر ہم بل اداکریں گے تو نفع کے بجائے سراسر نقصان ہوگا، اور اس میں چار بڑی مشینیں ہیں اور چار بڑےٹرانسفارمر ہیں،  ایک ٹرانسفارمر پر میٹر باندھا ہواہے اور  باقی تین بغیر میٹر کے ہیں، اب یہ پوچھنا ہے کہ اس کا استعمال جائز ہے یا نہیں ہے ؟

2۔اب ہم ایسا کریں کہ اس فیکٹری کو دوسرے شخص کو ٹھیکہ پر دیں کیا پھر اس ٹھیکہ کے پیسے ہمارے لیے حلال ہیں؟ حالانکہ یہ چوری کی بجلی کی ترتیب تو ہم نے پہلے سے بنائی ہوئی ہے،  اب ہم جس کو ٹھیکہ پر دے رہے ہیں اسے یہ کہیں کہ آپ چلائیں چاہے آپ بل اداکریں یا ادا نہ کریں، کیا اس ٹھیکے کے پیسے ہمارے لیے حلال ہیں شرعاً کیا حکم ہے ؟ اور اگر متبادل کوئی صورت ممکن ہو وہ بھی بتادیں۔

جواب

1۔واضح رہے کہ بغیر میٹر کے غیر قانونی بجلی استعمال کرنا   شرعاً نا جائز اور قانوناً جرم  ہے، اور یہ چوری کے حکم میں ہے ،   لہٰذا مذکورہ صورت میں اگرچہ بجلی کے بل کو مکمل ادا کرنے سے ظاہری اعتبار سے  نقصان ہونے کا امکان ہے لیکن اس طرح کرنے سے کیا چوری کے گناہِ کبیرہ  میں مبتلا نہیں ہوگا؟ نیز اب تک جو بجلی بغیر میٹر کے وہ استعمال کر چکا ہے  اس پر خوب توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے اور متعلقہ ادارے تک  اس رقم کو واپس کرنا ضروری ہے، اگر  مقدار کا اندازہ  نہیں ہے تو  اپنے  ماہانہ بجلی کے استعمال کے یونٹ کو دیکھ کر اندازہ لگایا جائے کہ پہلے کس قدر بجلی چوری کی استعمال کی ہے، اس اندازے سے احتیاطاً  کچھ زیادہ رقم جمع کرادی جائے۔

2۔ چوں کہ بجلی کی چوری کی ترتیب  فیکٹری کے مالک نے بنائی تھی، لہٰذا  اس ترتیب کو درست  کرنا اسی کے ذمے ہے، اگر مالک درست نہیں کرتا اور جس کو ٹھیکے پر دے رہا ہے اس سے یہ کہے کہ  آپ چلائیں تو یہ ایک  گناہ کے عمل  میں معاون بننے کی وجہ سے خود گناہ گار ہوگا، اور اگر ٹھیکہ پر لینے والا شخص مکمل بل ادا نہ کرے تو وہ بھی گناہ گار  ہوگا،  تاہم اگر ٹھیکہ پر لینے والا شخص  مکمل بل ادا کرنا چاہے تو اس کی یہ صورت  ہے کہ فیکٹری کے مالک سے اس بات کا مطالبہ  کرے کہ بجلی کے میٹر کی ترتیب کو درست کیا جائے،یعنی کام کے حساب سے مزید میٹر لگائے، اس لیے  کہ ایسی عمومی تعمیرات جن کا تعلق براہِ راست جگہ سے ہو، اور اس کا فائدہ مالکِ مکان کو بھی پہنچتا ہوتو ان کے اخراجات برداشت کرنا مالک کے ذمہ ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"والثاني وجوب ‌رد ‌عين ‌المسروق على صاحبه إذا كان قائما بعينه، وجملة الكلام فيه: أن المسروق في يد السارق لا يخلو إما أن كان على حاله لم يتغير، وإما أن أحدث السارق فيه حدثا، فإن كان على حاله رده على المالك؛ لما روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه قال: (على اليد ما أخذت حتى ترده) ، وروي أنه - عليه الصلاة والسلام - قال (من وجد عين ماله فهو أحق به)."

(كتاب السرقة، فصل في حكم السرقة، ج:7، ص:89، ط:دار الكتب العلمية)

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

"(المادة 530) التعميرات التي أنشأها المستأجر بإذن الآجر إن كانت عائدة لإصلاح المأجور وصيانته عن تطرق الخلل كتنظيم الكرميد (أي القرميد وهو نوع من الآجر يوضع على السطوح لحفظه من المطر) فالمستأجر يأخذ مصروفات هذه التعميرات من الآجر وإن لم يجر بينهما شرط على أخذه، وإن كانت عائدة لمنافع المستأجر فقط كتعمير المطابخ فليس للمستأجر أخذ مصروفاتها ما لم يذكر شرط أخذها بينهما."

(الكتاب الثاني: في الإجارات، ‌‌الباب السادس في بيان أنواع المأجور وأحكامه، الفصل الأول...، ص: 100، ط:مكتبه نور محمد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100263

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں