بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فیس بک یوٹیوب پر ویڈیو اپ لوڈ کرکے پیسے کمانے کا حکم


سوال

فیس بک چینل،یوٹیوب چینل اور انٹر نیٹ پر ویب سائٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی کے بارے کیا حکم ہے؟مثال کے طور پر ایک آدمی پھلوں ،سبزیوں اور پھولوں وغیرہ کے حوالے سے چینل اور ویب بناتا ہے اور لوگوں کو پھلوں سبزیوں اور پھول وغیرہ اگانے کے طریقے بتاتا ہےاور موسم بتاتا ہے کہ کون سی چیز کس موسم میں اگائی جاتی ہے،پھلوں اور سبزیوں کے فائدے بتاتا ہے ،اس کے علاوہ قرآن مجید اور حدیث مبارکہ کی تشہیر کے چینل اور کھانا پکانے کے چینل وغیرہ؟

جواب

فیس بک ، یوٹیوب چینل  وغیرہ پر ویڈیو بنا کر اسے اَپ لوڈ کر کے پیسے کمانے کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر چینل پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والا:

1۔  جان د ار  کی تصویر والی ویڈیو اپ لوڈ کرے، یا  اس ویڈیو  میں  جان دار کی تصویر ہو۔

2۔ یا اس ویڈیو میں میوزک  اور موسیقی ہو۔

3۔ یا اشتہار  غیر شرعی ہو ۔

4۔  یا  کسی بھی غیر شرعی شے کا اشتہار ہو۔

5۔ یا اس کے لیے کوئی غیر شرعی معاہدہ کرنا پڑتا ہو۔

تو اس کے ذریعے پیسے کمانا جائز نہیں ہے۔

عام طور پر اگر ویڈیو میں مذکورہ خرابیاں  نہ بھی ہوں،  تب بھی یوٹیوب  وغیرہ کی طرف سے لگائے جانے والے  اشتہار میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں،  اور  ان چینلز پر آمدن کا ذریعہ اشتہارات ہوتے ہیں، اور  معلومات کے مطابق یوٹیوب کے کمرشل استعمال کے لیے انتظامیہ کو اشتہار چلانے کی اجازت دینی ہوتی ہے، اور  وہ ملکوں، لوکیشن  اور سرچنگ ڈیوائس کے حساب سے مختلف اشتہار چلاتے ہیں، مثلاً  پاکستان میں اسی ویڈیو پر وہ کوئی اشتہار چلاتے ہیں، مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں، ایک ڈیوائس پر الگ اشتہار چلتا ہے تو دوسری پر دوسرا،  جس  میں بسااوقات حرام اور ناجائز چیزوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں، نیز مذکورہ چینلز پر آمدن کے حصول کے لیے جو اجارہ کیا جاتا ہے وہ بھی شرعًا فاسد ہوتا ہے، ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر یوٹیوب پر ویڈیو اپ لوڈ کرکے پیسے کمانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صورة الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث وسواء صنعه بما يمتهن أو بغيره فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء ما كان فى ثوب أو بساط أودرهم أو دينار أو فلس أو إناء أو حائط أو غيرها وأما تصوير صورة الشجر ورحال الإبل وغير ذلك مما ليس فيه صورة حيوان فليس بحرام هذا حكم نفس التصوير وأما اتخاذ المصور فيه صورة حيوان فإن كان معلقا على حائط أو ثوبا ملبوسا أو عمامة ونحوذلك مما لايعد ممتهنا فهو حرام وإن كان في بساط يداس ومخدة ووسادة ونحوها مما يمتهن فليس بحرام ولكن هل يمنع دخول ملائكة الرحمة ذلك البيت فيه كلام نذكره قريبا إن شاء الله ولافرق فى هذا كله بين ماله ظل ومالاظل له". 

(کتاب اللباس والزینة، باب تحريم صورة الحيوان وتحريم اتخاذ ما فيه، ج:14، ص:81، ط:دار احياء التراث العربى)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"روى سعيد بن جبير عن أبي الصهباء البكري قال: سئل عبد الله بن مسعود عن قوله تعالى:" ومن الناس من يشتري لهو الحديث" فقال: الغناء والله الذي لا إله إلا هو، يرددها ثلاث مرات. وعن ابن عمر أنه الغناء، وكذلك قال عكرمة وميمون بن مهران ومكحول. وروى شعبة وسفيان عن الحكم وحماد عن إبراهيم قال قال عبد الله بن مسعود: الغناء ينبت النفاق في القلب، وقاله مجاهد، وزاد: إن لهو الحديث في الآية الاستماع إلى الغناء وإلى مثله من الباطل. وقال الحسن: لهو الحديث المعازف والغناء. وقال القاسم بن محمد: الغناء باطل والباطل في النار. وقال ابن القاسم سألت مالكا عنه فقال: قال الله تعالى:"فماذا بعد الحق إلا الضلال" «١» [يونس: ٣٢] أفحق هو؟! وترجم البخاري «٢» (باب كل لهو باطل إذا شغل عن طاعة الله، ومن قال لصاحبه تعال أقامرك)، وقوله تعالى:" ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله بغير علم ويتخذها هزوا" فقوله: (إذا شغل عن طاعة الله) مأخوذ من قوله تعالى:" ليضل عن سبيل الله". وعن الحسن أيضا: هو الكفر والشرك. وتأوله قوم على الأحاديث التي يتلهى بها أهل الباطل واللعب".

(سورة لقمان، ج:14، ص:52، ط:دار الكتب المصرية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503102176

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں