بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فیس بک (facebook) کی مختلف پوسٹس (posts) پر فرضی لائیک (like) کر کے پیسے کمانے کا حکم


سوال

 کے جی ایپ انٹرنیٹ پر ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ کچھ پیسے لے کر رجسٹرڈ کرتے ہیں، پھر روزانہ کام دیتے ہیں کہ چند پوسٹیں فیس بک کی لائیک کرنی ہوتی ہیں، جن میں ایڈورٹائیزر کا مقصد صرف لائیک کروانا ہی ہوتا ہے اور یہ ایپ والے نئے یوزرز کو ملانے پر بھی کمیشن دیتے ہیں، مہربانی فرماکر راہ نمائی فرمادیں کہ یہ حلال طریقہ ہے یا حرام؟

جواب

ہماری معلومات کے مطابق سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم مثلاً فیس بک وغیرہ کے پوسٹوں اور ایڈز (اشتہارات) پر فرضی لائیک اور کلک کر کے آن لائن پیسے کمانے کا جو طریقہ آج کل رائج ہے وہ درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

1- اس میں ایسے لوگ  اشتہارات اور پوسٹوں کو دیکھتے ہیں  جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریداری نہیں چاہتے ہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔

2-  اس میں جاندار کی تصویربینی ہوتی ہے جبکہ جاندار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں، لہذا اس پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔

3- عام طور پر ان اشتہارات پوسٹوں میں  خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے مستقل گناہ ہے۔

 4- اس معاملے میں جس طریق پر متعلقہ سائٹ کی پبلسٹی کی جاتی ہے جس میں پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کوہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے جب کہ  اس نے  نئے اکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا ، اس بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور  اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں۔ شریعت میں بلا  محنت کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن سعيد بن عمير الأنصاري، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الكسب أطيب ؟ قال: عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور."

شعب الإيمان،التوکل بالله عزوجل والتسلیم لأمرہ تعالیٰ: ج:2، ص:434، ط: مکتبة الرشد)

ترجمہ:”آپ ﷺ سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع“۔

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن :

"قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به".

(شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن :ج:7، ص: 2112)

 لہٰذا  حلال کمائی کے لیے کسی بھی  ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے  کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔    

فتاوٰی شامی میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال، قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم.

وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار ، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".

(مطلب في أجرة الدلال: ج:6، ص:63، ط: سعید)

الموسوعة الفقهية الكويتية :

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة. ولايجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً ؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها، ولا على حمل الخنزير".

(الإجارة علی المعاصی والطاعات: ج:1، ص:290، ط: دار السلاسل) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402101668

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں